خیبر تدریسی ہسپتال پشاور جو صوبے کا طبی سہولیات اور بیڈز کے حوالے سے دوسرا بڑا ہسپتال ہے میں گزشتہ روز آکسیجن کی عدم دستیابی سے چھ مریضوںکی ہلاکت نے جہاں کورونا وباءسے ملک بھر میںبالعموم اور خیبر پختون خوا میںبالخصوص پھیلے غم اور افسوس کی فضاءکو مذید گہرا کردیا ہے وہاں اس سانحے نے موجودہ حکومت کے صحت کے نظام میں اصلاحات اور عام لوگوں کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے دعوﺅں کی نفی بھی کردی ہے ۔ صوبے کے کسی ہسپتال میں بد انتظامی یا پھر لوگوں کی صحت اور زندگی سے کھیلنے کا نہ تو یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی ہمارے رویوں نیز ہمارے ہاں رائج صحت کے فرسودہ اور خدمت کے جذبے سے عاری نظام کے حوالے سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا آخری واقعہ ثابت ہوگا ‘کوئی بھی فرد اس بات پر یقین کرنے کیلئے تیارنہیں ہوگا کہ آئندہ ہمارے ہاں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوگا اور یہ کہ اس واقعہ کے ذمہ داروں کو ملنے والی عارضی سزا سے یہ نظام خودبخودٹھیک ہو جائے گا۔ دراصل خیبر تدریسی ہسپتال میں وقوع پزیر ہونے والے اس واقعے کے کئی عوامل پر بات ہوسکتی ہے اور اصل میں یہ سب عوامل جو درحقیقت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کی بدولت ہی یہ سانحہ رونما ہوا ہے لیکن اگر فی الوقت ہم زیادہ تفصیل یا گہرائی میں جائے بغیر اسکے بعض واضح اور ظاہری اسباب پر ہی نظر ڈال لیں تو ہمیں اسطرح کے واقعات کی اصل تہہ تک پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں حقیقی معنوں میں کبھی بھی فلاح عامہ اور لوگوں کی زندگی کو مختلف شعبوں میں بہترین خدمات بہم پہنچانا اولین ترجیح نہیں اور جب بھی کوئی حکومت کوئی نیا لائحہ عمل یا پروگرام ترتیب دیتی ہے اسمیں عوام کی فلاح و بہبود سے ہٹ کر دیگر چیزوں پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔موجودہ حکومت جو صوبے میں پانچ سال تک برسر اقتدار رہنے والی سابقہ حکومت کا تسلسل ہے تاہم صرف شعبہ صحت کی حد تک ہی لیا جائے تو اسکے نتائج کچھ زیادہ خوشگوار نظر نہیں آئیںگے۔ صوبے کے تدریسی ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی کا متنازعہ نظام متعارف کرائے جانے کے بعد ریجنل اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹیز کے قیام کے ذریعے محکمہ صحت میں جن تجربات کا ڈول ڈالا گیا اسکو تا حال نہ تو طبی ملازمین نے دل سے قبول کیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ عوام کو بہتر طبی خدمات کی صورت میں ملا ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں بعض سبسیڈائزڈ سہولیات کے خاتمے اور بعض سہولیات کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ نے رہی سہی کسر پوری کرتے ہوئے سرکاری ہسپتالو ں میں علاج معالجے کے سہولیات کو عام لوگوں کی دسترس سے باہر کر دیا ہے۔ لہٰذا اگر ہم حقیقی معنوں میں معاشرے کے عام لوگوں کو صحت کے حوالے سے کوئی ریلیف دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں سطحی فیصلوں کی بجائے مسائل کی جڑوں تک پہنچ کر زمینی حقائق کی روشنی میں بڑے بڑے اقدامات اٹھانا ہونگے۔ کے ٹی ایچ میں پیش آنے والے واقعے کو ٹیسٹنگ کیس سمجھتے ہوئے ان تمام عوامل اور وجوہات کا خاتمہ کرنا ہوگا جن کے باعث اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔دیکھا جائے تو اس سلسلے میں مسلسل مانیٹرنگ کا نظام موجود نہیں تب ہی تو مسئلہ درپیش ہونے پر ہی اس کا پتہ چلتا ہے۔ اگر ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس میں خاص طور پر ہسپتالوں میں تمام شعبوں کی مسلسل مانیٹرنگ ہورہی ہو تو ایسے حادثات کو تدارک مستقل بنیادوں پر ممکن ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحت کا شعبہ کسی بھی ملک میں کلیدی اہمیت کاحامل ہے کیونکہ اگر یہ شعبہ فعال ہے اور یہاں پر معاملات صحیح سمت میں چل رہے ہیں تو ایک صحت مند قوم پروان چڑھتی ہے ۔جبکہ دوسری صورت میں اگر صحت کا شعبہ فعال نہ ہو اور یہ آبادی کی مناسبت سے استعداد نہ رکھتا ہوتو پھراس کے اثرات دیگر شعبوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں ۔