کون جانے جی کا حال

یہ غم دل کیا ہوتا ہے ۔یہ وحشتِ دل کیا ہوتی ہے ۔کیونکہ شہر کی رات ہوتی ہے اور جگمگاتی جاگتی ہوئی ۔پھر جن کے گھر ہوتے بھی ہیں وہ سب کچھ ہوتے ہوئے یہی محسوس کرتے ہیں کہ کسی چیز کی کمی ہے ۔ وہ اس اداسی اور تنہائی کے عالم میں سڑکوں پر آوارہ گھومتے ہیں۔جیسے ناصر کاظمی نے کہا ” بھری دنیا میں جی نہیں لگتا ۔ جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی ۔ سو گئے لوگ اس حویلی کے ۔ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی “ ۔ یہ کون ہے جو اس گراں قدر و قیمت والی کوٹھی کی ایک کھڑکی کے پیچھے بے قراری کے عالم میں جاگ رہاہے ۔جسے نیند نہیں آ رہی۔ سب سو گئے مگر وہ نہیں سویا۔وہ ابھی نہیں رویا ۔شاید رات کے پچھلے پہر روپڑے ۔کیونکہ اس کے دل میں غبار بہت زیادہ بھر گیا ہے ۔جیسے منیر نیازی نے کہہ ڈالا ” جانتا ہو ں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر۔غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں“۔ یا فراز کے کہے میں آکر شاید دو آنسو بہا لے کہ ” ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز۔ ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا“۔” جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سوجا۔ کہیں سن نہ لے زمانہ اے دل خموش ہو جا“۔ یا محسن احسان ہی کے بقول ” ترس نہ اتنا بھی کمخواب و پرنیاں کے لئے ۔ سکونِ دل ہے میسر تو خاک پر سو جا“ مگر نیندکسے آتی ہے سکون کس کو ہے۔ ” رات پھیلی ہے تیرے سرمئی آنچل کی طرح ۔ چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے پاگل کی طرح“۔جب لیلائے شب اپنی زلفیں بکھیر دیتی ہے تو سونے والے سو جاتے ہیں مگر جس دل میں د رد ہو اس کے لبوں سے یہی صدا نکلتی ہے” نہ تم آئے نہ نیند آئی نہ موت آئی“۔ ”موت کو بھی توآج آنا تھا۔ وہ بھی کم بخت کہیں مر گئی ہے “۔” ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے۔ ستاروں تم تو سو جا¶ پریشاں رات ساری ہے “۔مگر راتوں کا جاگنا بہت اوکھا ہے ۔جاگنے والے یا تو دکھیا بیمار ہوتے ہیں یا چور جو کسی دیوار میں سوراخ کرنے کہیں چوری چکاری کے درپے ہوتے ہیں۔جس سے عشق ہے اس کو تو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ۔وہ تو اس تکلف سے ماورا ہے ۔ مگر وہ کیسے سو جاتے ہیں جو اس سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس کی یاد سے غافل ہو کر نیند کی وادیوں میں نادان یوں کھو جاتے ہیں کہ جیسے صبح کبھی نہ ہوگی جیسے انھوں نے کبھی اٹھنانہیں ہے ۔بے قراری کا عالم ہو اور محبوبِ ازلی کی یاد ہو تو سوجانا غیرت پہ ایک کوڑا ہے ۔یونہی تو غالب نے اس بے چینی کے عالم میں نہیں کہہ دیا ” موت کا ایک دن معین ہے ۔ نیند کیوں رات بھر نہیں آتی“۔دن اگر مقرر ہے تو موت کا ہے نیند کا تونہیں ۔نیند تو روز آتی ہے آج کیوں نہیں آ رہی“۔فارغ بخاری نے اپنی طرز میں کہا ” اس عبادت کو کون سمجھے گا ۔ کس نے دیکھے ہیں رت جگے اپنے“۔فراز نے اسی بے سکونی کے بارے میں شعر کہا ” آج تک اپنی بے کلی کا سبب ۔خود بھی جانا نہیں کہ تم سے کہیں “۔پھر اقبال جیسی باغ و بہار شخصیت بھی انتر ہوت اداسی کے گھمن گھیر میں یوں الجھی کہ کہکشا¶ں سے بھری اس کائنات میں بھی ان کو تنہائی ہی نظر آئی” یہ گنبدِ مینائی یہ عالمِ تنہائی ۔مجھ کو تو رُلاتی ہے اس دشت کی پہنائی“۔یہ سات آسمان یہ سات دنیائیں یہ سات زمینیں سات رنگ سات سر وں کا بہتا دریایہ قوسِ قزح یہ گاتے ہوئے پرندے بہتے ہوئے چشمے ” شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول مگر پھر بھی اقبال تہنا ہے ۔”نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہ فراغت ۔یہ جہاں عجب جہا ںہے نہ قفس نہ آشیانہ “۔اقبال کہا کرتے تھے کہ اب مجھے زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔ یہ کون سی شئے ہے جو کسی کو زندگی سے بیزار کردیتی ہے۔” اجل کیا ہے خمارِ بادہ¿ ہستی اتر جانا ۔فنا کا ہوش آنا زندگی کا دردِ سر جانا “۔سب کچھ اس دنیا میں ہے سب کچھ ہوتا ہے مگر کچھ ہوتا ہے جو نہیں ہوتا جس کے لئے رات شہر کی سڑکوں پر مجاز لکھنوی آوارہ گھومتے ہوئے کہتے ہیں ” اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں“۔کون سا غم ہے کہ ان سے سنبھالے نہیں سنبھالا جاتا ۔ خو دبھی سنبھل نہیں پاتے بلکہ اس دنیا سے روپوش بھی اسی غم کے کارن ہو جاتے ہیں۔ ناصر کاظمی کہتے ہیں ” ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے ۔دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے ۔کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لئے ۔ رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے “۔اماوس کی تین راتیں ہو ں۔جو چاند کے مہینے کی آخری تین راتیں ہو تی ہیں۔ جب پورے آسمان پر چاند کہیں بھی اپنی چاندنی سے روشنی نہیں دیتا ۔ اس چوپٹ اندھیرے میں ناصر یہ نہیں کہے گا تو کیا کہے گا ناصر نہیں کہے گا تو کون کہے گا” نئے کپڑے بدل کر جا¶ں کہا ں اور بال بنا¶ںکس کے لئے ۔ وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا اب باہر جا¶ں کس کے لئے “۔