سال 2017ءمیں بھارت کی مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اُس نے زرعی شعبے کی ترقی کے لئے ’مثالی قانون سازی‘ بنام ’ماڈل فارمنگ ایکٹ‘ متعارف کروائی ہے لیکن بہت جلد وفاقی حکومت کو احساس ہو گیا کہ مذکورہ قانون کی منظوری اور نفاذ آسان نہیں ہوگا کیونکہ اِس بارے میں صوبوں اور کاشتکار تنظیموں کی جانب سے تحفظات کا اظہار ہونے لگا‘ جس کے بعد قانون کا حسب توقع جامع بنانے کے لئے جولائی 2019ءمیں 7 وزرائے اعلیٰ پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی اور جون 2020ءکے پہلے ہفتے میں 3 (الگ الگ) عارضی قوانین تیار ہوئے جنہیں 15 سے 18 ستمبر 2020ءقانون ساز ایوان اور 20 سے 22 ستمبر راجیہ سبا سے مخالفت کے باوجود عددی اکثریت پر منظور کروانے کے بعد 28ستمبر 2020ءصدر (رام ناتھ کووند) نے اِن عارضی قوانین پر دستخط کرکے انہیں باقاعدہ قانون کی صورت لاگو کر دیا جس کے ردعمل میں چھوٹے کاشتکاروں کے احتجاج اور علامتی بھوک ہڑتال کا سلسلہ جاری ہے اور اُن کے 12 مطالبات میں سرفہرست مذکورہ تینوں قوانین کی واپسی جبکہ کاشتکاروں کے لئے ڈیزل (ایندھن) کی قیمت 50فیصد کم کرنے جیسا مطالبہ شامل ہے۔بھارت میں مزدور‘ کسان اور کاشتکار ملک گیر احتجاجی تحریک کا حصہ ہیں۔ مذکورہ قانون کے تحت فصلوں کی خریدوفروخت اور جملہ زرعی اجناس کی قیمتوں کے تعین میں حکومت کا کردار ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت فصلوں کی پیداواری ضروریات پر رعایت نہیں دے گی۔ نجی ادارے‘ تاجر یا سرمایہ کار کاشتکاروں سے براہ راست اجناس خریدیں گے جبکہ کاشتکاروں اور خریداروں میں لین دین میں ہونے والے تنازعات کے حل کے لئے صرف خصوصی عدالتوں سے رجوع کیا جائے گا یعنی کاشتکار سیشنز کورٹ (چھوٹی یا ماتحت عدالتوں) سے رجوع نہیں کر سکیں گے اور اگر کسی خصوصی عدالت کے فیصلے پر کاشتکار کو اعتماد نہ ہوا تو وہ عدالت عالیہ (ہائی کورٹ) سے رجوع کر سکے گا۔ کاشتکاروں کے اِس احتجاج میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی ہم آواز ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ مذکورہ قانون واپس لیا جائے۔ حکومت کی زرعی حکمت عملی پر نظرثانی کی جائے۔ کاشتکاروں کو دی جانے والی وقتاً فوقتاً سبسڈی ختم کرنے کی بجائے سبسڈی مختص کرنے اور بانٹنے کے عمل میں بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے۔ کاشتکاروں کی جسمانی و ذہنی صحت اور علاج معالجے کا بندوبست کیا جائے۔ جو کاشتکار قرض کے بوجھ تلے دبے ہیں حکومت اُنہیں قرض سے نجات دلانے کے لئے آسان شرائط پر بلاسود قرض دے اور زرعی شعبے کو منافع بخش بنانے کے لئے حکمت عملیاں بنائی جائیں۔ اٹھارہ ستمبر دوہزاربیس کے روز بھارت کے قانون ساز ایوان کو بتایا گیا کہ ”سال 2019ءکے دوران 10ہزار 281 کاشتکاروں نے خودکشیاں کیں۔“کاشتکار خودکشی کیسے کرسکتا ہے؟ کیا بھارت اور پاکستان کے کاشتکاروں کو ایک جیسے حالات کا سامنا ہے؟ بھارتی کاشتکاروں کے مسائل کو فہرست کیا جائے تو 1: پانی کی کمی اور بروقت عدم دستیابی۔ 2: آمدنی کے غیرمستقل ذرائع۔ 3: بڑے جاگیرداروں کا اراضی اور وسائل پر تسلط۔ 4: بااثر جاگیرداروں کا سیاسی اثرورسوخ جس کی وجہ سے محنت کش کاشتکاروں کی بجائے زراعت سے وابستہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروںکے مفادات کا تحفظ کرنے والی قانون سازی کی جاتی ہے۔ 5: چھوٹے کاشتکاروں کو قرض نہیں ملتے جس سے وہ فصلوں کی پیداواری ضروریات پوری کر سکیں اور نہ ہی چھوٹے کاشتکاروں کی فصلوں کا بیمہ ہوتا ہے تاکہ خشک سالی اور موسمی اثرات کی وجہ سے ہونے والے بنیادی نقصانات ہی کا ازالہ ہو سکے۔ 6: فصل تیار ہونے پر اُسے ذخیرہ اور فروخت کرنے کے لئے درکار مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹے کاشتکاروں کو نقصان ہوتا ہے اور اُنہیں اونے پونے داموں اپنی فصل فروخت کرنا پڑتی ہے۔ 7: زرعی تحقیق‘ ترقی اور توسیع کے حکومتی ادارے اور زراعت کے شعبے کے لئے باقاعدگی سے ہر سال اربوں روپے مختص ہوتے ہیں لیکن اِس سے چھوٹے کاشتکاروں کو فائدہ نہیں ہوتا بلکہ بڑے کاشتکار‘ زمیندار اور زرعی اجناس کی تجارت کرنے والے فائدہ اُٹھا لے جاتے ہیں۔ 8: قانون ساز اداروں میں چھوٹے کاشتکاروں کی نمائندگی نہیں ہوتی ‘پاکستان اور بھارت کی معیشت اور معاشرت زرعی ہے پاکستان کے لئے قوانین کی صورت فیصلہ سازی کرنےوالوں کو ایک آنکھ 28ستمبر 2020ءسے جاری بھارتی کاشتکاروں کے احتجاج پر رکھنی ہوگی۔