مرکزی حکومت نے وفاقی کابینہ میں ایک بار پھر ردوبدل کرتے ہوئے وزیر اعظم کے عہدے کے بعد وفاقی کابینہ اور حکومتی معاملات میں دوسری اہم ترین وزارت سمجھے جانے والی وزارت داخلہ کے وفاقی وزیر بریگیڈیئر (ر) سید اعجاز شاہ سے وزارت داخلہ کا قلمدان لے کر ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشیداحمد کووزیر داخلہ جبکہ بریگیڈیئر (ر) سید اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر انسداد منشیات اور ان کے پیش رو وفاقی وزیر انسداد منشیات سینیٹر اعظم سواتی کوشیخ رشید کی جگہ وزیر ریلوے اوروزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو مکمل وزیر بناکر وفاقی کابینہ میں شامل کرلیا ہے۔یاد رہے کہ عبدالحفیظ شیخ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے جس میںغیر منتخب مشیروں اور معاونین کو کابینہ کی کمیٹیوں کی سربراہی سے روکا گیاتھا کی روشنی میںوفاقی وزیر بنایا گیا ہے۔امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ متذکرہ فیصلے کے تحت وزیر اعظم کے غیرمنتخب مزید معاونین خصوصی اور مشیروں کو بھی وفاقی کابینہ میں شامل کیا جائے گا جن میں وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دا¶د اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے نام قابل ذکر ہیں۔باوثوق حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹرحفیظ شیخ، عبدالرزاق دا¶د اور ڈاکٹر فیصل سلطان چونکہ منتخب اراکین پارلیمنٹ نہیں ہیں اس لئے ان تینوں شخصیات کو آئندہ سال مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب کر کے وفاقی وزیر بنایا جائے گاالبتہ تب تک وزیر اعظم نے آئین کے تحت حاصل اختیارات کوبروئے کارلاتے ہوئے چھ ماہ کے عرصے کے لئے ان تینوں کو وفاقی کابینہ میں شامل کر نے کا فیصلہ کیاہے۔ دوسری جانب سیاسی مبصرین وفاقی کابینہ میں ہونے والے حالیہ ردوبدل کے تانے بانے اپوزیشن کی حکومت مخالف احتجاجی تحریک سے جوڑ رہے ہیں وہ اس ضمن میں شیخ رشید احمد کو ملنے والی وزارت داخلہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ شیخ رشید احمد کو ملنے والے اس ٹاسک کا مقصدپی ڈی ایم کا اسلام آباد کی جانب پرواز سے پہلے پہلے اس کے پرکاٹنا ہے۔سینئر سیاستدان شیخ رشید احمد نے 15ویں مرتبہ وفاقی وزارت کا قلمدان سنبھال کر منفرد ریکارڈ قائم کر دیا ۔شیخ رشید احمد 1991ءمیں نواز شریف کے دور حکومت میں وفاقی وزیرصنعت ، وفاقی وزیر ثقافت ،1997ءمیں ہی نواز شریف کے دور حکومت میںوفاقی وزیر کھیل، وفاقی وزیر ثقافت، وفاقی وزیر سیاحت،وفاقی وزیر امور نوجوانان، وفاقی وزیر محنت،وفاقی وزیر افرادی قوت، وفاقی وزیر سمندر پار پاکستانیز،2002ءمیں میر ظفر اللہ خان جمالی کی کابینہ میںوفاقی وزیر اطلاعات و نشریات،2004ءمیں چوہدری شجاعت حسین کی کابینہ میںبھی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ،2006ءمیں شوکت عزیز کے دور میں وفاقی وزیر ریلوے ، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات ،2018ءمیں وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ میںپہلے وفاقی وزیر ریلوے بنے اور اب انہیں وفاقی وزیر داخلہ کی اہم ذمہ داری سونپ دی گئی ہے‘شیخ رشید کے بارے میں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ موجودہ اپوزیشن کے خلاف اب تک اگر وفاقی کابینہ میں کسی وزیر نے سخت لب ولہجہ اختیار کئے رکھاہے تو شیخ رشیدہی ہیں ‘ وہ عوامی مسلم لیگ کے اکلوتے پارلیمینٹیرین ہونے کے علاوہ اس جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔مبصرین کا خیال ہے کہ شیخ رشید ایک مضبوط آدمی ہیں اوروہ چونکہ باتوں کے علاوہ طاقت کا استعمال بھی جانتے ہیں شاید اسی لئے حکومت نے پی ڈی ایم کے جاری احتجاج کے تناظر میں انہیں وزیر داخلہ مقرر کیا ہے ‘شیخ رشید کے بارے میں اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ انہیں چونکہ اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی مسلم لیگ ن اورپیپلز پارٹی کے ساتھ کام کرنے کا عملی تجربہ حاصل ہے اس لئے ان کے لئے ان دونوں جماعتوں کو ڈیل کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہوگا۔اسی طرح ان دنوں وہ میڈیا میں اپوزیشن جماعتوں کی لیڈرشپ بشمول میاں نواز شریف،آصف علی زرداری،مولانا فضل الرحمٰن،مریم نوازاور بلاول بھٹوجو لب ولہجہ اختیار کرتے رہے ہیں اور وہ اپوزیشن کے ان رہنماﺅں کا میڈیا ٹاکس میں جس طرح پوسٹ مارٹم کرتے رہے ہیں یہ اسی کا کمال ہے کہ انہیں اپوزیشن کی جانب سے طبل جنگ بجتے ہی وزیر داخلہ مقرر کرکے اپوزیشن کے اتحادکا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں اتارا گیا ہے۔سیاسی ماہرین کا استدلال ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمٰن اورمسلم لیگ(ن) کو خلاف توقع متحرک کرنے والی مریم نواز کودبانے کی سٹریٹیجی اپنائیں گے جبکہ وہ اب تک چونکہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے لئے قدرے نرم لب ولہجہ اپناتے رہے ہیں اس لئے عین ممکن ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور سینیٹ کے آئندہ انتخابات کے حوالے سے اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے ساتھ کوئی ڈیل کرنے کی حکمت عملی اپناسکتے ہیں۔اس بات پر تقریباً سب متفق ہیں کہ ان کا دامن کرپشن کے کسی بڑے سکینڈل سے ہمیشہ پاک رہا ہے ۔