کورونا کے پے در پے حملوں نے ہمیں کہیں کا بھی نہیں چھوڑا۔کالج سکول بند ہیں‘کلاس روم میں کلاس لیناآسان ہے ۔ آن لائن کلاس میں بہت سی مشکلات درپیش ہوتی ہے جو مسائل موبائل کے ساتھ سامنے آتے ہیں وہ الگ ہیں۔ پھر وہ مسائل الگ ہیں جو گھر میں لیکچر کے ریکارڈ کرنے کے دوران میں پیش آتے ہیں۔کس وقت کلاس لینا ہے ۔گھر میں کون سی جگہ اس کام کے لئے بہتر رہے گی۔ آواز کی کوالٹی اچھی ہونی چاہئے۔ اگر واٹس ایپ پر آواز اچھے طریقے سے پہنچتی ہے تو وہ اور بات ہے۔مگر خود اپنے گلے سے نکلنے والی آواز بہتر نہ ہو تو سننے والوں کے کان دکھنے لگتے ہیں۔ گھر میں اگر اس طرح کا کوئی کمرہ ہو جہاں چڑیا کی آواز تک نہ ہو ۔وہاں آن لائن کلاس کی ریکارڈنگ بہتر ہوتی ہے۔مگر جب لائیوو کلاس ہو تو اس میں بہت سے مسائل نکل آتے ہیں۔ حاضری لینا پھر سٹوڈنٹس کو آواز درست طریقے سے مشینی طور پر نہیں پہنچ رہی ہوتی۔ کسی کو تصویر نہیں جا رہی ہوتی ۔کوئی کہتا ہے کہ آواز نہیں آ رہی۔اس میں ٹیچر کا تو کوئی قصور نہیں اس میں نیٹ ورک کی خرابی آڑے آتی ہے ۔ کبھی نیٹ چیونٹی کی طرح سست رفتار ہوتاہے۔ کبھی سکرین پر دائرہ گھومنے لگتاہے ۔ٹیچر ہو یا طالب علم یا طالبہ ہر ایک کو مسائل درپیش آتے ہیں۔ سو ایسے میں واٹس ایپ پر صرف آواز کے ذریعے کلاس لینادرست ہوتاہے۔ واٹس ایپ میں آواز کابھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ پھر کلاس میں سائیلنٹ پلیز بھی نہیں کہنا پڑتا۔ اپنا آرام سے جو چاہا کہہ دیا اور سکون سے سبق پڑھادیا ۔ اب ان کی مرضی ہے کہ وہ یہ لیکچر کس وقت سنتے ہیں۔ استاد کی جان چھوٹ جاتی ہے۔مگر طالب علم اپنی سہولت کے مطابق جب وقت ملے اور اس کو فراغت ہو یہ ریکارڈ شدہ لیکچر سن سکتا ہے۔پھر ان لیکچرز کو اپنے پاس محفوظ بھی رکھ سکتا ہے ۔اب تو خیر کالج سکول کھل تو گئے ہیں ۔مگر ان معنوں میں ابھی نہیں کھلے کہ کلاس میں پہلے والا رش ہو ۔ بلکہ ایک گروپ نے آنا ہے دوسرے نے نہیں آنا ۔دور دور بیٹھنا ہے ۔غرضیکہ ایک اچار سا بنا ہوا ہے۔ خود استادوں کو بھی معلوم نہیں کیاکرنا ہے اور کیانہیں کرنا۔اچھی خاصی پریشانی کا عالم ہے ۔دل کو وہ تسلی نہیں ہوتی جو کلاس روم کے اندر ہوتی ہے ۔ہمارے نظام ہی میں کچھ ایسی خرابی ہے کہ طالب علم خواہ سکول کے ہیں یا کالج کے ہیں اداروں کے کھل جانے پرخوش نہیں ہیں ۔چاہئے کہ انھیں پڑھائی کا شوق ہو اور وہ شوق سے کالج کھولنے پرزور دیں۔پھر کالج اس کورونا کے عالم میں کھل جائیں تو اپنی دلچسپی کااظہار کریں۔مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ۔عام نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ وہ شوق نہیں جو ہونا چاہئے ۔ پھر ہماری روزی روٹی کے مسائل بھی اس میں دخل اندازی کر تے ہیں۔ ہم کلی طور پر ایک زخم خوردہ قوم ہیں۔جہاں ان کو روٹی ہی مکمل حاصل نہیں۔ ایسے میں وہ تعلیم کیاحاصل کریںگے۔ہم یہاں ڈگریاںلیتے ہیں کہ ہم نے آگے اس سند کو فروغ دے کر اپنے لئے کسی اچھی جاب کابندوبست کرناہوتاہے۔اگر یہ نہ ہو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ حالانکہ تعلیم حاصل کرنے کااصل مقصد نوکری حاصل کرنانہیں ۔بلکہ تعلیم سے مقصد انسانیت حاصل کرناہے ۔جو اکثر تو ہمیں ڈگریوںکے حصول کے بعد بھی حاصل نہیںہوتی۔بہت سے لوگ دیکھے کہ ہائی کلاس ڈگریاں رکھتے ہیں مگر تھرڈ کلاس ذہنیت ہے ۔پھرایسے بھی دکھائی دیئے جن کے پاس پرائمری تعلیم بھی نہیں ۔مگر انسانیت و شرافت کے لحاظ سے بہت اعلیٰ درجے پر ہیں۔تعلیم پر ہمارے ہاں بہت خرچہ کیاجاتاہے۔حکومت تو کرے گی کہ حکومت کا فرض ہے۔مگر خرچہ کے لحاظ سے وہ حق ادانہیں کرتی جو کرنا ہے ۔طلبا و طالبات کے والدین الگ خرچے کرتے ہیں ۔داخلہ فیس اور ماہانہ فیسیں پھر کتابوں کاپیوں کاخرچہ پھر ٹیوشن فیس ۔یونیورسٹیوں میں سمسٹر کے حساب سے لاکھوں دیناپڑتے ہیں ۔مگر صد افسوس کہ ہزاروں سٹوڈنٹ ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں اور ڈگریوں کے حصول کے باوجود ان کے پاس نوکری کاکوئی چانس نہیںہوتا۔زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا۔ میںان کو کیابتلا¶ں گا جن کو سب کچھ پہلے سے معلوم ہے۔