پرندے اڑتے ہیں تتلیاں اڑتی ہیں جہاز اڑتے ہیں پتنگیں اڑتی ہیں۔ مگر ایس او پیز تو نہیں اڑتے ان کو ہوا میں اڑایا جاتا ہے ۔ کون سے ایس او پیز کون ساماسک کون سا سینی ٹائزر کیا ہاتھ نہ ملانا۔یہ سب کس چڑیا کا نام ہے ۔اس کوتو چڑیاہی سمجھ کر ہوا میں اڑایا گیا ہے بلکہ اڑایاجا رہاہے۔مزید یہ کہ ا ن پابندیوں کے تو پرزے پرزے کر کے ہوامیں اچھالے جا رہے ہیں۔ نہ تو ان کو کورونا کی پہلی لہر میں اس وائرس کے پھیلنے کا خدشہ تھا او رنہ اب اس دوسرے مگر شدید ریلے میں خس وخاشاک کی طرح بہہ جانے کا خطرہ ہے۔ الٹا یہ جملہ سن رہے ہیں کہ ماسک پہننے سے تو میری سانس بند ہونے لگتی ہے ۔یہ عارضی طور پر سانس کا بند ہونا قدرے بہتر ہے نہ کہ آدمی کا اس بیماری کے ہاتھوں مکمل سانس بند ہو جائے۔ پھر ویسے بھی انسان کا بھروسہ ہی کیا ہے۔ ” آدمی بلبلہ ہے پانی کا ۔کیا بھروسہ ہے زندگانی کا“۔ اچھا نہیں کہ اس سانس کی حفاظت کی جائے۔ الٹا یہ تو کورونا ہی کو جھوٹ کاپلندہ قرار دیتے ہیں۔ جس سے پوچھو وہ اگر سمجھدار ہے تو شک وشبہ کا اظہار کرے گا۔ پھر اگر وہ نادان ہے صاف صاف کورونا کاانکار کر دے گا۔ اِدھر شہر میں اچھے خاصے دانا و بینا کورونا کا انکار کر کے جھٹ گلے بھی ملتے ہیں او رہاتھ بھی آگے کر دیتے ہیں۔ اب نہ ملا¶ تو ناراضی اور ملا¶ تو بیماری۔ کیامعلوم کس کو کورونا ہے کس کو نہیں۔ہم میں سے بعض کو تو علم ہی نہیںاو ر انھوں نے کورونا کا ٹائم پیریڈ گزار لیا ہوتا ہے۔ لیکن اس دوران میں وہ اور کتنوں کو یہ نامراد بیماری ٹرانسفر کرچکے ہوتے ہیں۔پھر ایسے بھی ہیں جن کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انھیں کورونا ہے ۔مگر اس کے باوجود نہ توقرنطین کی تنہائی میںالگ تھلگ ہوتے ہیں۔الٹا اپنے دشمنوں کے گھروں میں جان بوجھ کر چلے جاتے ہیں۔ بلکہ دروازے پر تھوک بھی آتے ہیں ۔دبا دبا کر گلے ملتے ہیں اور ان کو مصنوعی محبت میں چومتے ہیں۔ گرم جوشی سے ہاتھ ملاکرہاتھ نہیں چھوڑتے۔کیا آپ نے ٹی وی پر نہیں دیکھا ۔ایک افسر کےساتھ دوسرے اہلکارنے جانتے بوجھتے ایسا کیاتو اس کے خلاف مقدمہ بن گیا ۔اب سامنے والے کا بھی پتا نہیں ہوتا کہ ہاتھ ملاتا ہے کہ نہیں۔سو اسلئے گیدرنگ میں جاکر وہاں اپنے ہاتھ پیچھے باندھ لینے چاہئیں کیونکہ ہر آدمی کورونا کو تسلیم نہیں کرتا۔سیاسی طور پر تو میںجلسو ںکی نہ حمایت کرتا ہو ںاور نہ خلاف بولوں گا۔مگر اس بات کےخلاف ضرورہوں کہ خواہ جلسہ حکومتی ایوان والوں کاہو یا غیر حکومتی ارکان والوں کا ۔ اکٹھ میںقریب قریب کھڑے ہونا اور کوروناکوکھل کھیلنے کی دعوت دینادرست نہیں۔ اب یہ وائرس ایک آدمی کو بھی ہو تو اس جراثیم میں اتنی اہلیت اور طاقت ہے کہ جلسے کے سب کارکنان کے سینوں کی دھونکنیوں تک پہنچ کر انھیں ہمیشہ کے لئے ساکن کر سکتا ہے۔اگرکسی بینک میں گھسنا ہو یا کسی اور ادارے میں تو گیٹ پر ہی سیکورٹی گارڈ ماسک کاپوچھتاہے ۔ماسک پہنا تو نہیں ہوتا مگر عمارت کے اندرجانے والے صاحب اپنی جیب سے ماسک نکال کر عارضی طور پر پہن لیتے ہیں۔اندر جا کر کا¶نٹر پر کام نکلوا کر واپس آئیں گے تو باہر پھر سے ماسک اتارکر جیب میں ڈال لیں گے۔ماسک تو ایک مجبوری بن چکا ہے ۔جرمانے کی بات چلی تو وہ بھی ہوا میں اڑ گئی۔ اب کسی کے پاس دودھ کاڈبہ لانے کےلئے جیب میں سو پچاس رکھے ہوں تو وہ ماسک نہ پہننے کے جرم میں جرمانہ دے ۔ایسا بھی تو درست نہیں۔ مگر ایسے میں جو ایک سبق ملتا ہے وہ احتیاط کا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہاہے کہ اگر کوئی مفت میں ماسک تقسیم کر رہاہو تو اس سے ماسک نہ لیں۔ کیونکہ ان میں کورونا کے جراثیم کا سپرے کیا گیا ہوتا ہے۔عجیب عجیب باتیں ہی اورہم ہیں۔ سوشل میڈیا پر کوئی ایک مووی کوئی آواز کا کلپ ان کے ہاتھ چڑھ جائے تواس کواتنا وائرل کیا جاتا ہے کہ خود افواہوں کے کاغذ کے جہاز اڑانے والوں تک یہی جہاز واپس جا پہنچتے ہیں ۔پھران کو کوروناہونے کی صورت میںہسپتال کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔تب جا کر انھیں یقین آتا ہے کہ دنیا میں کورونابھی ہے اور یہ بھی کسی چیز کانام ہے۔ کورونا کی ویکسین تو برطانیہ میں لگائی جا رہی ہے۔مگر اتنے عوام میں سے کس کس کو لگائیں گے۔ ہم تک تو وہ ویکسین پہنچے گی توجانے مزید کتنے لوگ اس وائرس کا شکار ہو چکے ہونگے۔ اتنا تو پکا ہے کہ کورونا نے آخر ایک دن ختم ہونا ہے۔ مگر وہ دن جلد از جلدآئے تو کتنااچھا ہو۔