پاکستان میں قومی سیاست ’اتفاق رائے‘ کا نہیں بلکہ ’اختلاف رائے‘ کا مجموعہ ہے اور اِس بات کو سمجھنے کےلئے گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد ’پاکستان ڈیموکرٹیک موومنٹ (پی ڈی ایم)‘ قائدین کے قول و فعل سے اخذ کئی ایک ایسی مثالیں ہیں جن سے ’تضادات‘ چھلک رہے ہیں اور یہ قائدین کروڑوں پاکستانیوں کو قائل کرنا تو دور کی بات ایک دوسرے کے مو¿قف سے اختلاف رکھتے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے‘ جس کی وجہ سے حزب اقتدار پریشان نہیں۔ حالیہ ’اختلافی نوٹ‘ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی جانب سے سامنے آیا ہے جنہوں نے لاہور (مینار پاکستان) میں جلسہ¿ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں کسی کو کچھ کہنے نہیں آیا۔ ہم نے اپنی بساط کے مطابق سامراج کا مقابلہ کیا لیکن ہمیں گلہ ہے۔ ہندو‘ سکھ اور دوسرے رہنے والوں کے ساتھ لاہوریوں نے بھی ساتھ دیا انگریزوں کا۔ آپ سب نے مل کر افغان وطن پر قبضہ کرنے کےلئے انگریزوں کا ساتھ دیا‘ بس اتنا کافی ہے۔“ محمود خان اچکزئی کیا کہنا چاہتے تھے اور ایک سیاسی جلسے میں متنازعہ تاریخی واقعات کے ذکر سے اُن کا مقصد کیا تھا یہ تو واضح نہیں لیکن جو ”بڑی بات“ وہ کہہ گئے ہیں اُس کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے اُنہوں نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا ذکر کیا جو اپنے مو¿قف سے فوری رجوع کی تیزرفتار مثال بھی ہے۔محمود خان اچکزئی کے ’تاریخ لاہور‘ سے اقتباس اور لاہوریوں کے کردار بارے فیصلہ کن رائے پر سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور محمود خان اچکزئی کی جانب سے ٹوئٹر اکاو¿نٹ پر ایک معذرت بھی جاری ہوئی‘ جس کی اُنہوں نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے ایسا کوئی بھی تردیدی بیان جاری نہیں کیا اور وضاحت نے جلتی پر تیل چھڑکنے جیسا کام کیا ہے۔ قبل ازیں جو صارفین محمود خان اچکزئی کا دفاع کر رہے تھے اُن کی اکثریت بھی تنقید کر رہی ہے اور تاریخ کے متضاد پہلوو¿ں سے آگاہ برصغیر پاک و ہند میں پیش آئے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے محمود خان کے مو¿قف کی نفی کر رہے ہیں! تاریخ کی مستند کتابوں میں ایسے کسی مخصوص واقع یا واقعات کا ذکر نہیں ملتا جس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ پنجاب یا لاہور کے رہنے والوں نے افغان وطن پر قبضے کےلئے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ تاریخ اِس بارے میں خاموش ہے البتہ تاریخ دانوں نے ہر دورمیں اپنے اپنے مطالب سے جو نتائج اخذ کئے وہ نہ تو سوفیصد درست ہیں اور نہ ہی سوفیصد غلط ہیں۔ عمومی تاثر کے برعکس تاریخ بتاتی ہے کہ برصغیر پر باہر سے حملہ آور ہونے والوں کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت پنجاب نے کی اور یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ پنجاب کی جانب سے انگریز راج میں مزاحمت کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ سکندرِ اعظم پوری دنیا فتح کرتا ہوا آیا مگر جب وہ پنجاب کی سرزمین پر پہنچا تو اسے اتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ شہاب الدین غوری افغانستان کے علاقے سے حملہ آور ہوا‘ جسے پنجاب میں راجپوتوں نے مارا۔ تاریخ کے مختلف ادوار ہیں اور اِن میں پنجاب پر تنقید کا بیانیہ ملتا ہے تاہم اگر غیرجانبداری سے نظریے کا مطالعہ کیا جائے تو رائے بدلنا پڑتی ہے۔ عمومی تاثر کے برعکس برصغیر پر بیرونی حملوں کی پہلی لہر کا سامنا پنجاب نے کیا تھا ‘ٹوئیٹر پر دیگر صارفین کے علاوہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی بحث میں حصہ لیا اور لکھا کہ ”اچکزئی نے یہ واضح کر دیا کہ وہ افغانوں کےلئے بولتے ہیں‘ جب پنجاب کے دارالحکومت میں کھڑے ہوکر انہوں نے پنجابیوں کو بے عزت کرنے اور ان پر الزام لگانے کا انتخاب کیا۔“ ایک رائے یہ ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے حکمراں جماعت کے نمائندے ان باتوں پر دھیان نہیں دیں گے اور بجائے فوری جواب دینے کے تاریخ لاہور و پنجاب کے اُن ابواب کا مطالعہ کیا جانا چاہئے جو برطانوی راج سے متعلق ہیں۔ انگریز کے دور میں بھی مزاحمت کی علامت جتنی بڑی شخصیات تاریخ میں ملتی ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے تھا جیسا کہ بھگت سنگھ اور ادھم سنگھ وغیرہ۔ ادھم سنگھ کو برصغیر کی تحریک ِآزادی کی نمایاں شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ جنہوں نے اُس وقت کے سابق انگریز لیفٹینینٹ گورنر مائیکل ڈائیر کو لندن میں گولی مار کر قتل کیا تھا۔ یہ وہی جنرل ڈائیر تھے جنہیں 1919ءمیں جلیانوالہ باغ میں مقامی افراد کے قتلِ عام کا حکم دینے کا ذمہ دار قرار دیا گیا بہرحال تاریخ کے کئی ابواب اِیسے واقعات کے بیان میں بطور ثبوت پیش کئے جا سکتے ہیں کہ ”عمومی تاثر“ کے برعکس پنجاب کا کردار مختلف تھا۔ سیاسی رہنماو¿ں کو سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ اُن کی تقاریر نوجوان اور طالب علم بھی سنتے ہیں‘ جن کے ذہن پہلے ہی تاریخ میں الجھے ہوئے ہیں تو ایسی تاریخ کا ”غیرضروری تذکرہ“ اگر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ نوازش ہوگی۔