چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان علاقائی امن اور استحکام کےلئے عالمی اور علاقائی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔انہوں نے یہ یقین دہانی افغان مفاہمت کےلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہونے والی ایک خصوصی ملاقات میں کی ہے۔ خلیل زاد کا تازہ ترین دورہ ایک ایسے وقت میں ہواہے جب ایک جانب افغان حکومت اور افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیموں نے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے ایجنڈے پر مشاورت کےلئے اپنی گفتگو میں 20 دن کے وقفے کا اعلان کیا ہے جب کہ دوسری جانب افغانستان کے مختلف علاقوں سے افغان سیکورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں مسلسل اضافے اور دونوں جانب سے بھاری جانی نقصان کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔واضح رہے کہ افغان حکومت اور طالبان نمائندوں کے درمیان جاری جامع امن مذاکرات عارضی طور پر 5 جنوری 2021 تک ملتوی کردیئے گئے ہیں۔جب کہ بعض ذرائع افغانستان کے طول وعرض میں جاری بدامنی کے پے درپے واقعات اور متحارب فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر حملوں میں تیزی کے تناظر میں ان خدشات کااظہار بھی کررہے ہےں کہ آیا مذاکرات کا یہ دور طے شدہ شیڈول کے مطابق منعقد ہو بھی سکے گا یا نہیں۔یاد رہے کہ آئندہ بات چیت کے قواعد و ضوابط پر 2 دسمبر کو معاہدہ طے پانے کے بعد فی الحال دونوں فریق انٹرا افغان ڈائیلاگ کے تفصیلی ایجنڈے پر بات چیت کر رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کے درمیان حالیہ وقفہ اور اس کےساتھ ہونے والی غیر یقینی صورتحال امریکہ کےلئے پریشانی کا باعث ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ زلمے خلیل زاد کو اچانک ہنگامی طور پر ایک بار پھر راولپنڈی کا دورہ ایک ایسے موقع پر کرنا پڑا ہے جب امریکی انتظامیہ نہ صرف تبدیلی کے مراحل سے گزر رہی ہے بلکہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں پرانی انتظامیہ اپنے طے شدہ اعلان کے مطابق 31دسمبر سے پہلے پہلے آدھی سے زیادہ امریکی افواج کے انخلاءکے اپنے پرانے ٹائم ٹیبل پر عملدرآمد کی بھی خواہشمند ہے۔اسی طرح نو منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نہ صرف افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاءکے صدر ٹرمپ کے سابقہ اعلان پر نظر ثانی کاعندیہ دے چکے ہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنی نئی افغان پالیسی تشکیل دینے کیلئے اپنی ایسی نئی ٹیم بھی سامنے لاسکتے ہیں جس میں زلمے خلیل زاد کیلئے شایدکوئی جگہ نہیں ہوگی اس لئے وہ جاتے جاتے اپنے طے شدہ ایجنڈے پرزیادہ سے زیادہ عملدرآمد کے یقیناًخواہشمند ہوں گے۔زلمے خلیل زادنے اپنے حالیہ دورہ اسلام آباد کے موقع پر اسلام آباد پہنچنے کے بعدکیے گئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ افغانستان میںجنگ بدستور جاری ہے۔ سیاسی تصفیہ کی ضرورت، تشدد میں کمی اور جنگ بندی فوری طور پر باقی ہے۔انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہاکہ یہ خطرہ کتنا ہے اس کے پیش نظریہ ضروری ہے کہ مذاکرات کی بحالی میں تاخیر نہ ہو اور اتفاق رائے کے مطابق انہیں 5 جنوری کو دوبارہ یہ عمل شروع کرنا چاہئے۔یہاںیہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ اس سال فروری میں طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحا میں ہونے والے معاہدے میں پاکستان نے نہ صرف امریکہ اور طالبان کو معاہدے پر دستخط کرنے میں مدد فراہم کی تھی بلکہ انٹرا افغان مذاکرات کے آغاز اور اس کےلئے بات چیت کے قواعد و ضوابط کے بارے میں حالیہ معاہدے میں بھی پاکستان مدد فراہم کرتا رہا ہے۔اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے اپنے گزشتہ دنوں کے دورہ کابل کے دوران بھی افغان قیادت کو افغانستان میں تشدد میں کمی کےلئے اپنے مکمل تعاون کااعادہ کیا تھا۔ انہوں نے صدر اشرف غنی کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق ہر وہ کام کریں گے جس سے افغانستان میں جاری بدامنی کے خاتمے میں مدد مل سکتی ہو ۔ دریں اثناءافغانستان سے آمدہ تازہ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندہار کے نواح میں کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں پچاس سے زائد طالبان کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ قندہار صوبے کے ایک سرکاری اہلکار نے میڈیا کوبتایا کہ اس لڑائی کے دوران افغان فورسز نے طالبان حملہ آوروں کو پسپا کرنے کے لئے جوفضائی حملے کیئے ان کے نتیجے میں قندہار شہر کے ایک نواحی ضلع میں ایک ہی خاندان کے سات عام شہری بھی مارے گئے ہیں ۔ علاوہ ازیں کابل سے ایک دوسری موصولہ خبر میں بتایا گیا ہے کہ کابل میں ایک گاڑی پرہونے والے بم حملے میں دو افراد جان بحق اور دو زخمی ہو گئے ہیں ۔دوسری جانب طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ قندوزکی ایک سیکورٹی چوکی پرطالبان کے حملے میں چھ افغان سیکورٹی اہلکار جاں بحق ،تین زخمی جب کہ تین لاپتہ ہو گئے ہیں۔ایک اور خبر کے مطابق ننگر ہار کے ضلع خوگیانی میں ایک گاڑی کے بارودی سرنگ سے ٹکرانے کے باعث چار عام شہری جان بحق ہو گئے ہیں۔ اس تمام صورتحال کومدنظر رکھتے ہوئے اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں مستقل قیام امن کیلئے تاحال ایک طویل مسافت طے کرنا باقی ہے۔