پہلے بھی سکول بند تھے ۔بچے گلیوں میں خوار پھرتے رہتے تھے ۔اب بھی حال وہی ہے ۔میں نے سوچاکہ اس کے شوق کو دیکھ کر اس کو بجائے اس کے کہ کاپیوں کتابوں کی طرف راغب کروں کیوں نہ اس کو جوڈوکراٹے کی گیم سکھلانے کےلئے کہیں کسی جیم میں داخل کروادوں۔کیونکہ اگر بزور اسے ہوم ورک کی طرف رغبت دلاتا تو الٹااس کا تعلیم ہی سے دل بیزار ہوجاتا۔جواس کےلئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتاتھا۔کیونکہ ایسے میںنفسیاتی مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں ۔پھر وہ عمر بھر بھی سکول کی طرف نہ آتا۔بلکہ اسے سکولنگ سے نفرت سی ہو جاتی۔ سوچا کہ کورونا کے چند دن نہ سہی چندمہینے تو ہیں ۔پھر طلباءتو گھروں میں بیکار بیٹھے ہیں ۔الٹا گھرمیں دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ لڑائیاں لڑنے لگے ہیں۔ سو اس کا شوق بھی پورا ہوگا اور وقت بھی اچھا گزر جائے گا۔ مگر کیا معلوم کہ کورونا کی دوسری لہر نے سب کچھ الٹ پلٹ دیا ہے ۔میں نے اسے کہا کہ میں تمہیں مارشل آرٹ میں داخل تو کروا دوں گا ۔مگر گھرمیں اگر کسی بہن بھائی پر تم نے اپنی پریکٹس کرتے ہوئے کسی کو لات لگا دی تو میں تم کو لاتوں سے سنگسار کروں گا۔میں نے اسے استاد نجم کے پاس لے گیا جو خود بھی ایک سرکاری ملاز م ہے ۔مگر ایک بلڈنگ کے تہہ خانے میں اس نے اس قسم کے فن کاایک سیٹ اپ بنا رکھا ہے ۔فیس لی جاتی ہے اور یہاں جوڈو کراٹے اور ان سے متعلق اور گیم سکھلائے جاتے ہیں۔جب استاد سے بات چیت ہوئی اور میں نے کہا اس بچے کو مارشل آرٹ سیکھنے کا بہت شوق ہے ۔یہ گلی میں دوسرے بچوں پر لاتیں چلاتارہتا ہے ۔اس سے پہلے کہ کوئی اس کے ہاتھوں دانت تڑوا بیٹھے اس کو میں یہاں آپ کی سرپرستی میں لے آیاہوں تاکہ یہی زور اور طاقت ایک خوبصورت شکل میں ڈھل جائے یہ کھلاڑی بن جائے۔ جب میں نے تہہ خانہ کی سیڑھیاں اتر کر نیچے جا کر دیکھا تو استاد کے دونوں ہاتھوں پر بھاری بھرکم پیڈ چڑھے ہوئے تھے ۔وہ ایسے میں اپنے شاگروں کو نمبرواری دعوت دے رہاتھا کہ وہ اس کو ایک پہ دوسری کک ماریں‘ جی چاہاتھا کہ میں بھی اس ہو ہا کی آوازوں میں کہیں آدھی شلوار پہن کر اس کھیل کی پریکٹس کروں ۔ مگر دوسرے ہی لمحے خیال آیا کہ اگلے کی پہلی کک ہوگی اور ہماری زندگی کی آخری کک بن جا©ئے گی۔ اس کے بعد ہم اس قابل کہا ں ہوںگے لات تو چھوڑ زمین سے اٹھ ہی سکیں۔ سوچا جس کاکام اسی کو ساجھے۔یہ زور آزمائی ہم میں نایاب توکیاناپیدہے ۔ایک لات کھائی نہیں اور زمین بوس ہوئے نہیں ۔بلکہ زمین بوس چھوڑیں عین امکان ہے کہ زمین دوز ہو جائیں۔سوچاورزش کے اور مواقع ہیں جن سے لطف اٹھاکر اپنا شوق پوراکیا جاسکتا ہے۔بہت ہوا پیدل چل لیں گے یہ بھی بڑی چیز ہے ۔پھراگر تھوڑا پریکٹس ہو تو ا ن شاءاللہ پھرجاگنگ شروع کر دیں گے۔لیکن لگتا مشکل ہے ‘اس جیم میں اور شاگرد بھی کافی تھے ۔جس سے اندازہ ہو رہاتھا کہ اس بچے کی طرح جو میرے ساتھ گیا اور بہت سے لوگ بھی دنیا میں فارغ ہیں ۔پھر شاید یہ بھی گلیوں میں خوار پھرتے ہیں۔کیونکہ نیچے یہاں وہاں دو دو کھلاڑی آپس میں گتھم گتھا تھے ہو ہا کی آوازیں کانوں میں رس تو نہیں گھول رہی تھیں اور نہ کہتا ہوں کہ زہر گھول رہی تھیں مگر کچھ اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ہم جیسے خاموش رہنے والوں کے لئے جو نہ بولناچاہتے ہوںاور ٹی وی کی ہیڈ لائنز کے علاوہ اور کچھ سننا نہ چاہتے ہوںیہ آوازیں کانوں پر لگتے ہوئے ہتھوڑے محسوس ہو رہے تھے۔ا س غیر زبان کی جوش و سرور والی آوازوں کے درمیان میںجب استاد کو میں نے استدعا کی جناب یہ بچہ جوڈو کراٹے سیکھنا چاہتا ہے تو اس نے بچے سے پہلے تو مجھے غور سے دیکھا ۔مجھے ڈر لگا احساس ہوا کہ کہیں ہمارا استقبال بجائے اس کے کہ ہنستی پیشانی سے ہو الٹا ہم لاتوں اور گھونسوں کی نذر نہ کردیئے جائیں۔استاد شاید مجھے جانتا تھاکہیں کسی سکول میں یہ بھی استاد ہے ۔اس نے فورا ً دیواروں پر لٹکے ہوئے اپنے حاصل کردہ سونے کے میڈل اتار کر دونوں ہاتھوں میں پکڑ لئے کہا دیکھو میں نے اس کھیل میں یہی کچھ حاصل کیا ہے ۔اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکا۔ بس شہرت ہے اور پھر خالی خولی شہرت تو پیٹ نہیں بھرتی ۔ جا¶ بیٹا کوئی او رکام کرو جا¶ جاکر پڑھو لکھو۔ مگر بیٹا اورکوئی کام نہیں کرنا چاہتاتھا۔اسی لئے تو یہاں آیا تھا۔