پاکستان کو درپیش داخلی و خارجی محاذوں پر مسائل کی شدت میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے توجہ قومی مسائل کے حل اور کسی ممکنہ حل کے لئے حزب اختلاف کی تجاویز کی صورت سامنے نہیں آ رہا اور نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ پاکستان جوہری صلاحیت رکھنے والا ملک ہے‘ جس کے دفاع کی طرح ہر ادارے کی کارکردگی ناقابل تسخیر اور مثالی ہونی چاہئے۔ باعث فخر ہے کہ دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کے لئے ملک کو جوہری قوت سے سرفراز کرنے کی کوششوں سے قوم کی مایوسیوں کا ازالہ ہوا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کئی سیاہ باب ہیں‘ جن میں اِضافہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے لائحہ عمل تیار ہونا چاہئے۔ پاکستان نے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کیلئے تمام تر کوششیں کی لیکن بھارت کی سازشیں ختم نہیں ہوئیں یہاں تک کے بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ یہ بڑ بھی مار چکے ہیں کہ پاکستان ”راہ راست“ پر نہ آیا تو اسے دس پندرہ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیں گے۔ اسی طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو پاکستان دشمنی کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں‘ بلوچستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو پاکستان سے الگ کرنے کی اپنے ذہن میں سمائی سازشوں کا اعلانیہ اظہار کرتے رہتے ہیں اور اس اظہار کا اعادہ انہوں نے گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کے موقع پر بھی ان انتخابات کو متنازعہ قرار دلانے کی کوششوں کے ذریعے کیا۔ وہ اپنی ان سازشوں کی بنیاد پر ہی پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی پھیلا کر اسے انتشار کا شکار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بھارتی ”را“ کے قائم کردہ اس نیٹ ورک کے ذریعے ہی بھارتی دہشت گردوں کو افغان دھرتی پر تربیت اور مالی سرپرستی کرکے افغان سرحد کے راستے پاکستان بھجوایا جاتا ہے جنہیں پاکستان میں بھارتی فنڈنگ پر پلنے والے سہولت کار دستیاب ہوتے ہیں جن کی معاونت سے وہ دہشت گردی کےلئے بھارتی متعین کردہ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اِس صورتحال میں کیا پاکستان کی سیاسی قیادت کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جس سے بھارت کی خواہش کے مطابق پاکستان داخلی عدم استحکام سے دوچار ہو؟پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشیں ڈھکی چھپی نہیں‘ جن کے دستاویزی ثبوت بھی دنیا کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ بھارت اپنے جنگی جنون کو عملی قالب میں ڈھالنے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے اور یہ بات بھی بعیداز قیاس نہیں کہ سانحہ سقوط ڈھاکہ اور سانحہ آرمی پبلک سکول کی کربناک یاد تازہ کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی پر ایک ایسے وقت میں وار کیا جائے جبکہ قیادت کی توجہ آپسی اختلافات کی وجہ بٹی ہوئی ہے۔ قومی سیاسی حکومتی اور عسکری قیادتوں کا دفاع وطن کےلئے یکجہت ہونا اور اس ناطے سے دشمن کو سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینا ضروری ہے۔ آج بدقسمتی سے ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی جس نہج تک جاپہنچی ہے اُس میں قومی ریاستی اداروں کے مابین بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے‘ جو دشمن کو ملک کی سلامتی کے خلاف کھل کر اپنی سازشوں کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے جبکہ آج ملک کی سلامتی کےلئے متفکر ہونے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر آج بھارت ہم پر سرجیکل سٹرائیکس کی اعلانیہ منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے تو اس کا ٹھوس جواب ہمیں قومی اتحاد کے بل بوتے پر دینا ہے نہ کہ ہم سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں تک لے جا کر اپنے سفاک دشمن کو قومی انتشار کی جھلک دکھائیں اور اسے ملک کی سلامتی پر اس کے منصوبے کے مطابق وار کرنے کا نادر موقع فراہم کریں۔ پے در پے قومی سانحات کو مدنظر رکھ کر داخلی سلامتی کو ناقابل تسخیر بنانے کےلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو قومی اتحاد و یک جہتی کی فضا میں ہی ممکن ہے اس لئے قومی سیاسی قیادتیں باہم دست و گریباں ہونے کی بجائے باہم سرجوڑ کر بیٹھیں اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کےلئے عساکر پاکستان کے ہاتھ مضبوط بنائیں۔ جمہوریت کی معنویت و مقصدیت اِختلاف ِرائے میں پنہاں ہوتا ہے اِختلاف عمل میں نہیں۔ سیاسی رہنماو¿ں کو عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے موجودہ صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے کہ کس طرح ’سیاسی اختلافات‘ ملک کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہے ہیں اور کس طرح اِس پورے منظرنامے سے ملک دشمن عناصر کو اپنے عزائم کی تکمیل اور پاکستان کو کمزور کرنے کی سازشیں کرنے کا موقع میسر آ رہا ہے۔ درپیش قومی مسائل کے موجود سیاسی حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔