سینٹ انتخابات سے متعلق تحریک اِنصاف کی حکمت عملی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے لئے ’سرپرائز‘ بنی ہوئی ہے کیونکہ حکومت نے اُس ’دُکھتی ہوئی رگ‘ پر نہ صرف ہاتھ رکھا ہے بلکہ ہاتھ کا دباو¿ بھی اِس قدر ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی قیادت نہ چاہتے ہوئے بھی بلبلا اُٹھی ہے۔ مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم صفدر نے کہا ہے کہ ”حزب اختلاف قبل از وقت سینیٹ انتخابات کے انعقاد کی مخالفت کرے گی۔“ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ”شو آف ہینڈز کے ذریعے سینٹ انتخابات میں رائے شماری ممکن نہیں ہے۔“ وہ حزب اختلاف جو وسط مدتی عام انتخابات چاہتی ہے لیکن سینیٹ انتخابات جو کہ 9 فروری سے 11 مارچ کے درمیان کسی بھی وقت کروائے جا سکتے ہیں‘ کے انعقاد کو طول دینا چاہتی ہے کیونکہ سینیٹ انتخابات ہونے میں زیادہ فائدہ تحریک انصاف کا ہے اور اگر تحریک انصاف صرف اپنے اِس فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کر رہی ہوتی تو کبھی بھی رائے شماری کے لئے ’شو آف ہینڈز‘ پر اصرار نہ کرتی۔ عمران خان کی سیاست اِسی وجہ سے مختلف اور روایتی سیاست دانوں سے مختلف ہے کہ وہ غیرمتوقع فیصلے کرتے ہیں اور ایک مرتبہ فیصلہ کرنے کے بعد اُس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات کی تاریخ ایسے شرمناک واقعات سے بھری پڑی ہے‘ جس میں اراکین کی وفاداریاں خریدی گئیں۔ اِس جرم میں صرف نواز لیگ اور پیپلزپارٹی جیسی قومی سیاست کرنے والی جماعتیں ہی نہیں بلکہ قوم پرست اور مذہبی سیاسی جماعتین بھی یکساں شریک رہی ہیں اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جس کسی جماعت یا آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے اَراکین اسمبلی کو جہاں موقع ملا اُنہوں نے سینیٹ انتخابات میں اپنی وفاداریاں فروخت کیں اور یہی وجہ ہے کہ خواتین و ٹیکنوکریٹس جیسی نشستیں مخصوص کرنے کی حکمت عملی سے خاطرخواہ مقاصد (نتائج) حاصل نہیں ہو سکے۔ سینیٹ انتخابات میں خریدوفروخت (ہارس ٹریڈنگ) کے انسداد کے حوالے سے تحریک انصاف کا اصولی مو¿قف پہلی مرتبہ ’شو آف ہینڈز‘ کی خواہش صورت سامنے نہیں آیا بلکہ اِس سے قبل 20 اپریل 2018ءکو تحریک انصاف نے اُن 20 سینیٹرز کے ناموں کی فہرست جاری کرتے ہوئے اُن کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا جنہوں نے سینیٹ انتخابات میں اپنی وفاداریاں (مبینہ طور پر) فروخت کی تھیں۔ سینٹ اراکین کی مدت گیارہ مارچ کو مکمل ہونے والی ہے جس سے ایک ماہ قبل یعنی 9 فروری کے بعد کسی بھی وقت (چار ہفتوں کے دوران) سینیٹ انتخابات کا انعقاد ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف سینیٹ انتخابات آخری ہفتے یعنی مارچ کی بجائے ابتدائی ہفتے (نو فروری کے فوراً بعد) کروانا چاہتی ہے اور دوسری خواہش ہے کہ رائے شماری ’شو آف ہینڈز‘ کے ذریعے ہو۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رائے لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ حزب اختلاف کے لئے معاملے کو طول دینے کے بعد انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے بعد عدالت سے رجوع کرنے کا آئینی حق (جواز‘ حیلہ و بہانہ) باقی نہ رہے۔ اگر دھاندلی مقصود نہیں تو ’شو آف ہینڈ‘ کے ذریعے سینیٹ انتخابات پرکسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہر اُس طریقے کو اپنایا (اِختیار کیا) جانا چاہئے‘ جس سے سینیٹ انتخابات میں شفافیت کا مثالی حصول ممکن ہو اور دنیا کےلئے مثال قرار پائیں کہ کس طرح جب جمہوریت اور اسلام اکٹھے ہوتے ہیں تو اِس سے خیروخوبیاں جنم لیتی ہیں۔ شو آف ہینڈز کے علاوہ سینٹ کی رکنیت کے لئے حقیقی اہل اُمیدوار نامزد کر کے بھی سیاسی جماعتیں تعمیری کردار ادا کر سکتی ہیں۔