امریکی صدر ٹرمپ صدارتی انتخاب میں نو منتخب صدر جو بائیڈن کی فتح کو اب بھی شکست میں تبدیل کرنے کی کوششوں سے باز نہیں آرہے۔اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کےلئے صدر ٹرمپ کی دیوانہ وار مسلسل کوششوں کے باوجود وہ ریاستوں میں شیڈول کے مطابق عوامی ووٹوں کی گنتی اور تصدیق رکوا سکے، نہ انتخابی ارکان کی تقرری اپنی مرضی کے مطابق کروا سکے، نہ انتخابی کالج کا اجلاس موخر کرواسکے اور نہ وہاں اپنی جیت یقینی بناسکے۔ انہوں نے پنسلوانیا، جارجیا اور مشی گن وغیرہ میں سپیکروں اور گورنروں کو فون پر فون کرکے نتائج تبدیل کروانے میں مدد کی اپیل کی مگر وہ بھی سب بے سود۔صدر ٹرمپ کو ابھی تک کسی عدالت سے بھی ریلیف نہیں مل سکا۔ ان کی ایما پر ریاست ٹیکساس نے پانچ ریاستوں کے انتخابی کالج ووٹوں کو صدر کے انتخاب کی گنتی میں شامل نہ کرنے اور جو بائیڈن کو مکمل تحقیقات اور وہاں دوبارہ ووٹنگ تک کامیاب نہ قرار دینے کا مقدمہ دائر کیا لیکن پنسلوانیا، مشی گن، جارجیا اور وس کونسن کے اٹارنی جنرلوں نے امریکی سپریم کورٹ میں مشترکہ طور پر اس مقدمے کو مسترد کرنے کی اپیل کی۔ سپریم کورٹ نے گیارہ دسمبر کو ٹیکساس کی اپیل مسترد کردی۔14 دسمبر کو امریکہ میں صدارتی انتخابی کالج کے ارکان (انتخاب کنندگان) نے تمام ریاستوں میں اجلاس منعقد کرکے جو بائیڈن یا صدر ٹرمپ کےلئے ووٹ استعمال کیے۔ نتائج کے مطابق جو بائیڈن کو 306 جبکہ صدر ٹرمپ کو 232 ووٹ ملے۔ اس طرح صدارت کےلئے درکار 270 ووٹوں سے جو بائیڈن آگے بڑھ گئے۔ اس طرح جو بائیڈن کی فتح پر امریکی آئین کے مطابق ایک اور سرکاری مہر لگ گئی۔انتخابی کالج میں اس ووٹنگ کا نتیجہ اگرچہ تمام ریاستوں میں عوامی ووٹنگ اور پھر وہاں کی مقامی اسمبلیوں میں ووٹوں کی تصدیق اور انتخابی کالج کے ارکان کی تقرری کے بعد اظہر من الشمس تھا لیکن صدر ٹرمپ کی جانب سے نتائج کو بدلنے کی کوششوں کے بعد لوگ ہر انتخابی کالج کے نتیجے کا بے چینی سے انتظار کرتے رہے۔ اگرچہ انتخابی کالج کے ارکان کے پاس اپنی پارٹی کے امیدوار کی بجائے مخالف کو بھی ووٹ دینے کا اختیار ہے مگر اس بار انتخابی کالج کے ارکان نے اپنی پارٹی لائن کے مطابق ووٹ دیا۔اب صدر ٹرمپ کے پاس آخری حربہ یہ رہ گیا ہے کہ وہ چھ جنوری کو امریکی کانگریس کے اجلاس میں انتخابی کالج کی ووٹنگ کی رسمی تصدیق کے عمل میں رکاوٹ پیدا کریں۔ صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے ارکانِ کانگریس کا ایک چھوٹا گروہ الابامہ کے سینیٹر مو بروکس کی قیادت میں اس پر کام کر رہا ہے۔ اس دوران البتہ صدر ٹرمپ کو ایک زبردست دھچکا لگا ہے کیونکہ سینیٹ میں اکثریتی لیڈر میک میکونل، جو ٹرمپ کے مضبوط ترین اور قریبی ساتھیوں میں سے تھے، نے نہ صرف انتخابی کالج میں جو بائیڈن کی رسمی کامیابی کے بعد صدر ٹرمپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور جو بائیڈن کو مبارکباد دی بلکہ انہوں نے خود اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ذریعے رپبلکن ارکانِ کانگریس کو چھ جنوری کے اجلاس میں نتائج کو چیلنج کرنے والے گروہ کا ساتھ نہ دینے اور انتخابی کالج کے ووٹوں کی فوری رسمی تصدیق کی اپیل کی۔ماہرین کہتے ہیں اگرچہ اس گروہ کی اپنے مقصد میں کامیابی کی امید کم ہے اور ابھی تک کسی رکن نے ان کے ساتھ شامل ہونے کا وعدہ نہیں کیا لیکن اگر اس گروہ کو کسی ایک بھی مزید رکنِ کانگریس کی حمایت حاصل ہوئی تو وہ پانچ ریاستوں کے انتخابی کالج نتائج کو صدارتی انتخاب سے باہر رکھنے یا نہ رکھنے کے سوال پر کانگریس میں ووٹنگ پر مجبور کرواسکتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ رسمی تصدیقی عمل سب ارکانِ کانگریس، خصوصاً رپبلکن ارکان، کےلئے ایک اور کڑی ازمائش بن جائے گا کیوں کہ انہیں سب کے سامنے یا تو صدرٹرمپ کی مخالفت کرنی ہوگی اور یا امریکی عوام کی واضح رائے کو مسترد کرنا ہوگا۔ اس طرح دونوں صورتوں میں 2022 میں پھر انتخابات کے متمنی سینیٹرز کو سیاسی نقصان ہوگا۔امریکی آئین کے مطابق اگر امریکی ایوان زیریں ایوانِ نمائندگان یا ایوان بالا سینیٹ کا کوئی ایک رکن بھی انتخابی کالج کے نتائج پر اعتراض کرے تو پھر ہر ایوان کو علیحدہ علیحدہ اس اعتراض پر بحث اور ووٹنگ کرنا ہوگی۔ ایوان نمائندگان، جس کے 435 ارکان ہیں، میں فی الحال ڈیموکریٹک پارٹی کو 222 ارکان کے ساتھ اکثریت حاصل ہے۔ جہاں تک امریکی سینیٹ، جس کے کل سو ارکان ہیں، کی بات ہے وہاں فی الحال رپیبلکن پارٹی کے پچاس اور ڈیموکرٹیک پارٹی کے اڑتالیس ارکان ہیں لیکن اگر پانچ جنوری کو ریاست جارجیا میں ہونے والے انتخاب میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے دو امیدوار جیت گئے تو پھر وہاں بھی ڈیموکریٹک پارٹی کا کنٹرول آجائے گا کیوں کہ پھر نومنتخب نائب صدر کمیلا ہیرس، جو سنییٹ کی صدر ہوں گی، دونوں پارٹیوں کے ووٹ برابر ہونے کی صورت میں اپنا ووٹ استعمال کرسکیں گی۔ یوں نومنتخب صدر جو بائیڈن کو وہاں کسی قسم کی مشکل نہیں ہوگی۔ واضح رہے موجودہ نائب صدر مائیک فینس نے بھی اب تک ووٹنگ کے دوران ٹائی کی وجہ سے تیرہ مرتبہ اپنا ووٹ استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جو بائیڈن نے جارجیا میں اپنے امیدواروں کےلئے عوامی حمایت حاصل کرنے کےلئے جلسوں سے خطاب کیا۔ وہ سینیٹ میں ریپبلکن ارکان سے راہ ورسم بڑھانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ آئندہ برس ویسے دونوں ایوانوں میں کئی ریاستی نشستوں پر انتخابات ہوں گے جن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے جیتنے کی پیش گوئی کی جارہی ہے بہرحال ایک بار پھر امریکی جمہوریت اور صدر کا انتخاب ریپبلکن ارکانِ کانگریس کے رحم و کرم پر ہیں۔ کیا وہ اپنی پارٹی کے صدر ٹرمپ کی خوشنودی کےلئے ان کے جھوٹ اور سازش کا حصہ بنیں گے یا آئین، جمہوریت اور عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کریں گے۔نو منتخب کانگریس 6 جنوری کو انتخابی کالج کے ووٹوں کی تصدیق کرتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے نائب صدر اجلاس کی صدارت کرتا ہے اور ہر ریاست کے انتخابی کالج ووٹ حروف تہجی کی ترتیب سے پکارے جاتے ہیں۔ اگر کانگریس کسی ریاست کے انتخابی کالج ووٹوں کو مسترد نہ کرے تو پھر ایک امیدوار کو جیتنے کےلئے انتخابی کالج کے 270 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کانگریس کے ممبر انتخابی ووٹوں کو چیلنج یا مسترد کرسکتے ہیں اگرچہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اگر کسی امیدوار کو اکثریت نہ ملی ہوتی تو پھر ایوان نمائندگان صدر منتخب کرنے کےلئے ووٹ دیتا جہاں اس ووٹنگ میں ہر ریاست کا صرف ایک ووٹ ہوتا ہے یعنی امیدوار کو جیتنے کے لئے 26 ووٹوں کی ضرورت ہوتی۔ہوسکتا ہے کانگریس چھ جنوری کو ووٹوں کی تصدیق نہ کرسکے اور دونوں امیدوار اپنی فتح کے دعوے کررہے ہوں۔ 1876 میں بھی دھاندلی کے دعوﺅں کے باعث ایک خاص انتخابی کمیشن نے صدر کی حلف برداری سے محض دو دن قبل تنازعہ پر فیصلہ دیا تھا‘ایک طرف تمام امریکی اضلاع اور ریاستوں کی اسمبلیوں اور ذمہ داران کو عوامی ووٹوں کی گنتی اور تصدیق کے نام پر کردار دیا گیا ہے کہ وہ اگر یہ گنتی اور تصدیق نہ کریں یا متاخر کردیں تو انتخابی کالج ارکان کی تقرری اور اجلاس متاخر ہوسکتے ہیں۔ اور دوسری جانب اگر انتخابی کالج کا اجلاس اور نتیجہ عوامی انتخابات کے مطابق آبھی جائے تو آخر میں امریکی کانگریس کو انتخابی کالج کے نتیجے کی تصدیق کے نام پر کردار دے کر بدنیتی اور سازش کا کھیل کھیلنے کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔