ان دنوں ہم آن لائن کلاسوں کی نذر ہو چکے ہیں ایک پہ ایک کلاس ہے اور ہم ہیں دوستو۔کیونکہ سکول کالج میں تو کلاس روم ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ اگر کوئی کالج کھلابھی ہے توبس ا س کے گیٹ کھلے ہیں ۔ اگر اساتذہ آتے ہیں تو اپنی حاضری یقینی بناتے ہیں ۔سو گھر میں ہم نے آن لائن کلاس لینے کی ٹھان لی ۔ آستینیں چڑھا لیں ایک آدھ بار کھانس کر اپنی آڈیو چیک کی ۔ ہیلو ہیلو ٹیسٹنگ آن لائن کلاس ۔ مگر یہ کیااپنی آواز خود سنائی نہیں دے رہی تھی ۔سمجھ نہیں آ رہی تھی ہم کہہ کیا رہے ہیں۔ سو دھڑکا لگ گیا کہ اب سٹوڈنٹس جو انتظار میں اپنے گھروں میں پشاور سے دوردارز علاقوں میں بیٹھے ہوںگے وہ کیاسنیں گے کیا سمجھیں گے۔ اپنی تونشیلی سی آواز ہے یہ پہلی بارجانا ۔اب سمجھے کہ جب کسی پروگرام میں سٹیج پر سے جو بولتے ہیں تو لوگ کیوں فیڈ بیک نہیں دیتے ۔ یوں لگا کہ ہم شب گیارہ بجے کے ایف ایم ریڈیو پر پرانے گانو ں غزلوں کے پروگرام میں ڈی جے ہیں ۔واہ واہ۔ اب آڈیو چیک ہوگئی ۔مگر خطرہ یہ کہ گھر کے اندر کافی شور شرابہ اور ہنگامہ ہوتا ہے ۔بلکہ بیگم کے ہاتھوں ہنگامی صورتِ حال کسی بھی وقت پیدا ہوسکتی ہے ۔کمرے میں لیکچر شروع کیا تو بچوں کی چوں چاں نے خاصہ پریشان کیا ۔ان کی آواز بھی لیکچر میں شامل ہوگئی ۔بڑی بیٹی کو آنکھوں سے گھور کر غصے کے عالم میں دیکھا تو وہ ننھے منے دو بہن بھائیوںکوباہر لے گئی۔ بلکہ سوچا شور اور چوں چراں کے ہاتھوں کمرے کے باتھ روم میں چلا جاتاہوں ۔کیونکہ وہاں تنہائی ہوگی ۔ کسی کا کیا کام جو اندر آئے۔پھر سوچاکمرے کی آوازیں اندر آ سکتی ہیں۔اس لئے دوسرے کمرے میں چلا آیا۔ لیکچر پھر سے سٹارٹ کرنا تھا۔کمرے کی تنہائی میں خیالات کا بہا¶ تھا کہ رکنے کانام نہیں لے رہا تھا۔ سوچا اب میں موبائل فون کے مائیک میں علم کے دریابہا دوں گا ۔سو بسم اللہ کر کے شروعات کیں تو پانچ منٹ گزرے کہ زینب پھر کمرے میں آ نکلی ۔ توتلی زبان میں کچھ کہنا چاہتی تھی ۔میں نے ہاتھ کے اشارے سے سخت معیوب چہرہ بنا کر آنکھیں نکالتے ہوئے اسے باہر جانے کا اشارہ کیا۔مگر وہ اپنی فریاد سنانا چاہتی تھی۔ مگر حرام ہو جوایک لفظ بھی سمجھ آیا ہو ۔اتنے میں اس کا بھائی اسے ڈھونڈتا ہوا کمرے کو دروازے کو دھماکہ سے کھول کر اند رآگیا۔ لو جی لیکچر کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ سوچا ”سو گھر کے کمرے سے چلتے ہیں اب بیٹھک کی طرف“۔کیونکہ یہ بچہ لوگ باہر نہیں جائیں گے میں خود صحن سے دور بیٹھک میں جا کر یہ فریضہ انجا م دیتا ہوں۔ بیٹھک میں اندر سے کنڈی لگا کر بیٹھ گیا۔ پھر سوچا بیگم آئیں گی تو جانے جی میں کیا سوچیں کہ نام کے اس پروفیسر نے اندر سے کنڈی کیوں لگا رکھی ہے ۔کیونکہ بیٹھک کا ایک دروازہ گلی میں بھی کھلتا ہے ۔اس لئے اٹھ کر گھر والے دروازے کی کنڈی کھول دی ۔ اب لیکچر سٹارٹ کرنا ہی غضب تھا۔ صاحبان جو چیز چھکڑا گاڑی کی طرح سٹارٹ ہی نہ ہو وہ آگے کیا جائے گی۔ پریشانی دگنی ہوئی۔کیونکہ ایک بار ریکارڈنگ کر کے وٹس ایپ پر ڈالی تو مشین کا میسج آیا کہ آپ کی آواز سولہ ایم بی سے زیادہ ہے ۔حالانکہ اتنا زیادہ نہیں تھا ۔چالیس منٹ کالیکچر تھا ۔سو وہ تو ہوا ضائع ۔پھر دوبارہ شروع کیا اور ڈائریکٹ وٹس ایپ پر ریکارڈنگ کا ٹچ بٹن دبا دیا۔ پھر تیس منٹ بولے مگر موبائل کی سکرین کو نہ دیکھا ۔چھتوں دیواروں کو دیکھ کر علم کے دریا بہانے لگا ۔ مگر کیامعلوم مجھے تو آنسوبہاناپڑیں گے۔جب دل کا غبار نکال لیا تو اور تیر کے نشان کو دباکر آگے سینڈ کرنا چاہا ۔مگرمعلوم ہوا کہ لیکچر توایک منٹ بھی ریکارڈ نہیں ہوا ۔ ماتھا پیٹا ۔اب میں کیاکروں ۔ سو یہ ریکارڈنگ بھی منسوخ کرکے تیسری بار بولا او ربولتا چلاگیا۔ساتھ موبا©ئل کی سکرین پر نگاہ رکھی کہ ریکارڈنگ کے نمبر آگے کو جارہے ہیں کہ نہیں ۔مگر بیچ میںکسی فون کے گھنٹی بجنے لگی ۔اس صاحب نے بھی جیسے رنگ کے بٹن پر انگلی رکھی اور مسلسل گھنٹیاں بجاتا رہا۔ سو اب پھر ریکارڈنگ کینسل کی چوتھی بار ریکارڈنگ کا بٹن دبا دیا۔ ہم گویاہوئے مائی ڈیئر سٹوڈنٹس یہ غزل کا پہلا شعر ہے ۔میر تقی میر کے دل کی آواز ہے ” ٹماٹر لے لو ٹماٹربہت سستے ہیں “۔اوہو میں نے پھر ریکارڈنگ روک لی ۔سوچا چلو یہ سبزی کے ٹھیلے والا گلی سے نکل جائے تو پھر شروع کرتا ہوں ۔مگر ایک جاتا دوسرا ریڑھی والا آجاتا۔ کیامعلوم کہ ہم نے ان تلخ تجربات سے گذر کر بعد میں موبائل ڈیوائس میں لیکچر ریکارڈنگ کی چالاکیاں سیکھنا تھیں۔