کیا ہوا اگرچلغوزے مہنگے ہیں ۔یہ پچھلے سال بھی گراں تھے۔پھر گذشتہ سے پیوستہ برسوں میں بھی عام آدمی کی قوتِ خرید نہیں تھی۔ اور کون سی چیز ارزاںہے ۔ اب اگر ان دنوں کی یخ ککر ہوا¶ں کی گود میں پل کر جوان ہونے والی سردی کے موسم کے غصے کا پارہ ہائی ہے اور روز بروز اوپر چڑھ رہا ہے تو کیا کیا جائے ان دنوں اگر ہوائے چمن کا دماغ درست نہیں تو کیا کریں کچھ نہیں کرسکتے گذاراتو کر سکتے ہیں گذار تو سکتے ہیں جیسے تیسے سہی ایسے ویسے سہی ۔کیا پچھلا سرد موسم نہیں گزر گیا۔ جب منفی دو تک ٹھنڈک نے درو دیوار پر ٹھنڈ کا لیپ کر دیا تھا۔ مگراس شہرِ ہنگامہ پرور میں سرگرمی اور سرگرمیاںپھر بھی ٹھنڈی نہیںہوئیں تھیں۔ا س سے پچھلے سا ل روز بارش ہوتی تھی ۔اتنی کہ جن کو بارش میں بھیگنا اچھا لگتا ہے ۔مینہ جن کا من بھاتا ہے وہ بھی اس روز کی بہار سے تنگ آ گئے تھے سو گزر ہی جائے گی یہ یخی بھی ۔ یخنی تو پی سکتے ہیں ۔بازار میں ایک پیالہ خرید کر یا دوستوں کے گروپ میں یا پلاسٹک کی تھیلی میں ہشت نگری گیٹ کے اندر سے لے آ¶ اور گھر میں باقی افراد کو پلا دو۔ مونگ پھلی اب اتنی بھی مہنگی نہیں ۔ مٹھی بھر لی جائے پھر گھر کے اوپن ایئر نیچے صحن یا اوپر کوٹھے پر ہوں ۔دھوپ سینکیں اور ساتھ چھیل کر کھاتے جائیں ۔اگر قہوہ ہو اور الائچی کے مہنگے ہونے کے آوازے ہوں تو کیا ہوا۔ بغیر الائچی کے مزا تو نہیں آئے گا مگر مصنوعی طور پر قہوہ بنوا کر بلکہ اگر گھر میں مسئلہ ہو تو خود بناکر اوپر چھت پر لے جائیں ‘دھوپ میں مونگ پھلی اور قہوے کی سرکیوں کے مزے لیں۔کیونکہ یہ موسم چلے گئے تو ہم فریاد کریں گے۔میں کیلے کے علاوہ ان پھلوں کے تو نام ہی نہیں لینا چاہتا جو دھوپ تلے بیٹھ کر کھائے جا سکتے ہیں۔ اگر نام لوں وہاں مہنگے ہوجائیں تو میں کیا کروںگا۔گرمیاں تھیںتو پا¶ں میں پہنے بوٹوں کے تلوے جھلسے جاتے تھے اور اب سردی میںگھر سے باہر نکلیں تو لگتا ہے بوٹوں کے اندر کسی نے پانی چھوڑ دیا ہے ۔ پا¶ں گیلے محسوس ہو تے ہیں ۔ میرا خیال ہے بلکہ یہاں تو ہر سال میرا خیال ہوتا ہے کہ اب برف پڑی او راب پڑی۔ کیونکہ یہ سردیاں تو پشاور کے رہن سہن والوں کی برداشت سے باہر ہو رہی ہےں تو کیا یہاں بھی برف پڑے گی۔ کیونکہ دو تک تو حرارت کی سوئی اس موسم میں نیچے آ گئی ہے ۔پھریہاں وہاں بارشیں ہیں۔ ملم جبہ میلے کی باتیں ہو رہی جہاں برف کا راج ہوتاہے ۔جانے والے جائیں شوق سے جائیں بلکہ وہ تو ہر جگہ جہاں برف گرتی ہے جاتے ہیں ۔مگر ہم سے نہیں جایا جاتا۔اگرچہ کہ کمرے کے اندرگیس ہی نہیں تو سوئی گیس کا ہیٹر کہاں سے جلے گا۔ باہر کچن میں چولھے سوکھے پڑے ہیں ۔ دوسری طرف فرمان ہے ہم نے گیس کا مسئلہ پورے ملک میں حل کردیا ہے ۔ پروانہ جاری ہوتا ہے کہ مہنگا ئی کوکنٹرول کر لیا ہے ۔مگر ایسی تو کوئی بات نہیں ۔جیسے باہر کی گرمی کمرے کی دیواروںمیں قیدہوکر حبس پیدا کرتی ہے ویسے ہی آج کل سردی درو دیوارکے اندر قید ہو جاتی ہے ۔باہر نکلوتو زیرِ آسماں جہاں دھوپ ہو وہاں بیٹھنے کو جی کرتا ہے ۔یہاں تو موسم کا درجہ ایک یا دو چل رہاہے ۔ مگر کراچی میں آٹھ درجہ حرارت میں بھی لوگ اُف اُف کر رہے ہیں ۔کیونکہ وہاں تو ایسی سردی پہلے نہیں پڑی۔ قدرت کے کام نرالے ہوتے ہیں کیا خبر وہاں برف باری ہو جائے۔پشاور کے وہ گھر ان دنوں مزید سختی کی لپیٹ میں ہیں جہاں گیس کا تو ذکر ہی کیا دھوپ ہی نیچے نہ آتی ہو سنگل سٹوری گھرو ںمیں جہاں زنانیاں چھت پر بھی نہیں جا سکتیں وہاں ہمسایوں کے اونچے گھردھوپ کے آگے دیوار بن جاتے ہیں ۔ اس صورت ِ حال میں ان غریبوں کے گھر نیچے صحن میںدن کو بارہ بجے بھی سورج دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ گرمیوں میں سورج بار ہ بجے کے لگ بھگ عین سر کے اوپر ہوتا ہے ۔ مگر سردیوں کا سورج بارہ بجے سر کے اوپر نہیں بلکہ کسی پردہ دار خاتون کی طرح جنوب کی طرف جھکتا ہوا چھپتا ہوا چھوٹاسا چکر پورا کر کے جلد غروب ہو جاتاہے ۔ اس لئے ہر گھر والے دھوپ سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے صاحبان گیس نہ ہوگی تو پانی کہاں سے آئے گا۔ لکڑیاں بھی کب تک جلیں گی خاشاک بھی کتنی آئے گی اب اس پر کھانا ہی بن جائے تو بھلا ہے گیس سیلنڈر میں گیس بھی تو مہنگی ہے کہ بھروا لی جائے۔ان دنوں اگر دھوپ بھی نکلی ہو تو دن گیارہ بجے سے پہلے سورج کی روشنی کچی ہوتی ہے بعد میںکہیں جا کر دھوپ تپتی ہے ۔ تب کہیں کھلے آسمان تلے بیٹھ سکیں گے۔ وگرنہ تو اتنی بے برکت ہوائیں چل رہی ہیں کہ پتوں پہ پتے گر رہے ہیں۔درخت خالی ہو رہے ہیں۔اس یخ بستہ ہوا میں دن گیارہ بجے سے پہلے سورج کی روشنی میں بھی سردی لگے تو بندہ کہاںجائے۔