بوند بوند زندگی

ذات اور ذاتی ضروریات سے بلند ہونا ہی اصل بلندی (سرفرازی) ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ بشمول سوشل میڈیا پر پاکستانی نوجوان حمزہ فرخ کے چرچے ہیں‘ جنہوں نے تعلیم کے دوران سال 2014ءمیں ’بوند شمس (@Bondheshamsinc)‘ نامی فلاحی تنظیم (منصوبے) کی بنیاد رکھی اور اِس کے ذریعے پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے متعلق ارادے کو انتہائی چھوٹے پیمانے پر عملی جامہ پہنایا لیکن وقت کے ساتھ اِس منصوبے کو بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ حمزہ فرخ (ٹوئیٹر ہینڈلر @HamzaFarrukh) جب امریکہ میں زیرتعلیم تھے‘ تب دوستوں کے ساتھ مل کر ’بوند شمس‘ کا آغاز کیا تھا۔ آغاز میں یہ تنظیم جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان میں مقامی آبادیوں کو صاف پانی کی سہولت فراہم کرتی رہی مگر وقت کے ساتھ انھوں نے اپنی خدمات کا دائرہ کار مغربی سوڈان کے علاوہ دیگر غریب ممالک تک بھی پھیلا دیا اور یوں ایک مقامی سوچ سے عالمی تحریک نے جنم لیا جو حقیقت میں ’بوند بوند پانی‘ نہیں بلکہ ’بوند بوند زندگی‘ بانٹ اور ان گنت نیکیاں سمیٹ رہی ہے۔ ”ایں سعادت بزور بازو نیست .... تا نہ بخشد خدائے بخشندہ (شیخ سعدیؒ)۔“بوند شمس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں زیرزمین یا کسی ممکنہ ذریعے (سورس) سے پانی کا حصول اور اُس کی تطہیرکا عمل شمسی توانائی (سولر پاور) کے ذریعے کیا جاتا ہے جبکہ اِس مقصد کےلئے استعمال ہونے والی ضروری اشیاءکا انتخاب کرتے ہوئے خوبصورتی سے زیادہ اُن کی پائیداری کو ذہن میں رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر استعمال ہونے والے کنٹینر میں سولر انرجی پلانٹ نصب کیا جاتا ہے جو عمارت کے مقابلے زیادہ پائیدار و مضبوط ہوتا ہے اور اِسے ایک جگہ سے دوسری جگہ (ضرورت پڑنے پر) منتقل کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔ مذکورہ دھاتی چادروں سے بنے کنٹینرز میں پانی کی تطہیر (فلٹریشن) کرنے والے آلات (پلانٹ) نصب ہوتا ہے جو اِس قدر جدید بنایا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے صاف اور فراہم ہونے والا پانی کی تفصیلات (تکنیکی اعدادوشمار‘ پانی کے معیار سے متعلق دیگر کوائف و ریکارڈ) بھی سنسرز کے ذریعے معلوم اور محفوظ کی جاتی ہیں تاکہ پانی کے معیار پر سمجھوتہ نہ ہو۔ کنٹینرز کے نیچے پہیے (ٹائر) لگا کر اِسے گاڑی کی شکل دی جاتی ہے تاکہ اِسے دور دراز علاقوں تک پہنچایا جا سکے‘ جہاں کے رہنے والوںکے لئے صاف پانی کسی خواب سے کم نہیں اور اِس خواب کو عملاً حقیقت بنا دیا گیاہے۔ اِس پوری حکمت عملی کو ذہن رکھتے ہوئے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں جاری ”صاف پانی منصوبے“ کا جائزہ لیں جس کے تحت یونین کونسلوں کی سطح پر ’واٹر فلٹریشن پلانٹ‘ گتے‘ پلاسٹک اور آہنی چادروں سے بنائے گئے کمروں میں نصب کئے جاتے ہیں۔ یہ شمسی توانائی سے نہیں بلکہ بجلی سے چلتے ہیں اور اِن میں لگائے گئے تطہیر کے آلات (فلٹریشن) کی دیکھ بھال اور تبدیلی وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے پانی کے معیار چند ہفتوں بعد اُسی طرح کا خراب ہو جاتا ہے‘ جس طرح یہ فلٹریشن پلانٹ نصب ہونے سے قبل تھا۔ پاکستان کے ایک نوجوان کی جانب سے صاف پانی کی فراہمی کتنی بڑی اور کتنی غیرمعمولی بات ہے اِس ایک نکتے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے صوبہ پنجاب میں شروع کئے گئے ”صاف پانی منصوبے“ کی مثال پیش خدمت ہے۔ 8 اپریل 2018ءکے روز پنجاب کے چیف سیکرٹری زاہد سعید عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان) کے طلب کرنے پر پیش ہوئے اور اُنہوں (اُس وقت کے) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار پر مشتمل دو رکنی بنچ کے سامنے بیان دیا کہ ”پنجاب میں ’صاف پانی منصوبے‘ پر 4 ارب روپے خرچ کئے گئے لیکن اِس سے صاف پانی کی ایک بوند بھی فراہم نہیں کی گئی!“ چیف سیکرٹری پنجاب کے اِس بیان سے 2 روز قبل ’صاف پانی منصوبے‘ نگران نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ صاف پانی منصوبے سے متعلق مشاورت اور منصوبہ سازی کے لئے 30 کروڑ (300 ملین) روپے غیرملکی اداروں اور افراد کو دیئے گئے۔ مسلم لیگ نواز کے رہنما وزیراعلیٰ شہباز شریف نے پنجاب کے مختلف اضلاع میں فلٹریشن پلانٹس نصب کرنے کےلئے 150 ارب روپے مختص کئے جبکہ اِس حکمت عملی کے تحت 116پلانٹس نصب ہوئے جن پر مجموعی طور پر ’4 ارب روپے‘ خرچ کئے گئے لیکن اِن سے ایک بوند پانی بھی حاصل نہیں کیا جا سکا۔ پانی کی فراہمی کے نام پر صرف لیگی قیادت ہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی بھی قومی وسائل کی لوٹ مار کرتی رہی ہے۔ شہباز شریف کی طرح بلاول بھٹو کا یہ بیان بھی سوشل میڈیا پر زیرگردش ہے کہ اُن کی جماعت (پیپلزپارٹی) نے صرف تھر کے صحرائی علاقے میں صاف پانی کی فراہمی کےلئے 700 فلٹریشن پلانٹس نصب کئے ہیں۔ جہاں پانی کی ایک بوند نہیں ملتی۔ جہاں غذائی قلت سے ہر سال ہزاروں بچے مر جاتے ہیں وہاں 700 پلانٹس تو دور کی بات سات پلانٹس بھی بطور (برسرزمین حقیقت) دکھائی نہیں دیتے۔ حمزہ فرخ کی تنظیم ’بوند شمس‘ چند برس میں قریب پچاس ہزار لوگوں کو آلودگی سے پاک پانی فراہم کر چکی ہے اور اِن کا مقصد ہر چھوٹے بڑے تک صاف پانی پہنچانا ہے جو بیماریوں اور اموات کی شرح کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ حمزہ فرخ کو اُن کی خدمات کے اعتراف میں ملکہ برطانیہ کی جانب سے اعزاز اور 129واں ’دولت مشترکہ پوائنٹ آف لائٹ ایوارڈ‘ بھی مل چکا ہے۔ حمزہ فرخ کسی ایسے ملک اور کسی ایسی قوم کو دھوکہ نہیں دے رہے جس نے اُنہیں اپنا رہنما قائد اور نمائندہ منتخب کیا بلکہ وہ سب کچھ اپنی ذاتی تسکین‘ اپنے مالی وسائل سے کر رہے ہیں۔ حمزہ فرخ پنجاب و بلوچستان میں مجموعی طور پر سولہ جبکہ مغربی سوڈان میں صاف پانی فراہم کرنے کے منصوبے کامیابی سے چلا رہے ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں زیرعتاب روہنگیا مسلمانوں کی بستیوں میں پانی کی فراہمی کے منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ شک و شبے سے بالاتر تصور ہے کہ آج پاکستان کو ضرورت (حاجت) ایسی (مشکل کشا) قیادت کی ہے‘ جو لالچ و حرص سے بالاتر ہو۔ جسے ذاتی اثاثوں میں اضافے اور نمودونمائش سے زیادہ عام آدمی کی زندگی میں معنوی آسانیاں لانے کی فکر ہو۔ ”فلاح آدمیت میں صعوبت سہ کے مر جانا .... یہی ہے کام کر جانا‘ یہی ہے نام کر جانا (گلزار دہلوی)۔“