سال 2020ءاختتام کے قریب ہے اور اگر اِس سال میں پیش آنے والے اُن عالمی واقعات کا فہرست کیا جائے جن کا تعلق ”انسانوں کی بقا ءاور مستقبل‘ ‘سے ہے تو اِس میں کمپیوٹرز پر منحصر ٹیکنالوجی کا کلیدی عمل دخل دکھائی دیتا ہے کیونکہ اِسی ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوا ہے کہ اِنسانوں کے کورونا وبا کا علاج ایک سال سے بھی کم عرصے میں دریافت کی جبکہ عمومی حالات میں کسی ویکسین کا تجرباتی دور مکمل ہونے میں کم سے کم دس برس کا عرصہ لگتا تھا۔ اِسی طرح کمپیوٹر ہی سے لیس ”انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ ‘کے سبب درس و تدریس کا عمل جاری رہا جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے معمولات زندگی معطل کرنا پڑے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ انٹرنیٹ نے انسانی زندگی میں سہولت اور آسائش سے سفر کا آغاز کیا تھا لیکن یہ بنیادی ضرورت بن گئی ہے اور اب کسی ایسی دنیا کا تصور غار کے زمانے میں رہنے جیسا لگتا ہے جس میں کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کی صورت رابطہ کاری نہ ہو۔ آج کی دنیا اگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں تقسیم ہے تو کمپیوٹر ہی وہ واحد سیڑھی ہیں جن کے ذریعے ترقی پذیر ممالک بھی ایک سطح بلند ہو سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ کمپیوٹروں کو مصنوعی ذہانت سے لیس کیا جارہا ہے‘ جس کا اگرچہ صحت و تعلیم کے شعبوں میں فی الوقت اِستعمال دفاعی شعبے کے مقابلے کم ہے لیکن بنی نوع انسان کے پاس دوسری کوئی صورت نہیں رہی کہ مصنوعی ذہانت سے سروں پر منڈلاتے بیماریوں‘ وباو¿ں اور موسمیاتی خطرات کا مقابلہ کریں۔کورونا وبا کے عرصے میں کمپیوٹروں کے ذریعے متاثرہ مریضوں کا علاج اور اُن تک کھانے پینے کی اشیاءپہنچائی گئیں۔ کمپیوٹروں کے ذریعے انسانوں کو بنا چھوئے اُن کا جسمانی درجہ حرارت ناپنے کے آلات بنے۔ جسم میں آکسیجن کی کمی بیشی کے آلات ایجاد ہوئے‘ جس سے ہر دن لاکھوں کروڑوں نہیں بلکہ اربوں افراد استفادہ کر رہے ہیں۔ سال 2020ءکے دوران تیزرفتار انٹرنیٹ ’5-G‘ پر منحصر ایسی گاڑیاں بھی سامنے آئیں جو مصنوعی ذہانت اور فیصلہ سازی جیسی قوت سے لیس بنا ڈرائیور بھی چل سکتی ہیں لیکن کورونا وبا کے باعث ایسی اور دیگر بہت سی ایجادات کی دھوم اور صنعتی (بڑے) پیمانے پر تیاری شروع نہ ہو سکی۔دوہزار بیس سوشل میڈیا کا سال رہا۔ اِس دوران سب سے زیادہ خبروں میں رہنے والی ایپلی کیشن ’ٹک ٹاک رہی۔ اِس چین ایپ پر امریکہ اور کئی ممالک میں پابندی لگائی گئی جبکہ اِس کے درپردہ کام کرنے والی منطق عالمی سطح پر سب سے زیادہ زیربحث آئی جس میں تنقید کا حصہ زیادہ رہا۔ یہ پہلی بڑی سوشل میڈیا ایپ تھی جو سیلیکون ویلی کے باہر سے چلائی جاتی ہے اور اس چینی پلیٹ فارم کی لوگوں میں مقبولیت کئی تنازعات کے باوجود واٹس ایپ‘ انسٹاگرام اور ٹوئٹر جیسی بن گئی تھی۔ ٹک ٹاک ایپ نے چھوٹی چھوٹی ویڈیوز بنانے کو مقبول کیا اور اس کے تجویزی منطق نے اسے دنیا کے اہم ترین ویڈیو پلیٹ فارموں میں سے ایک بنا دیا ‘دوہزار بیس کے آخر تک ٹک ٹاک سال کی سب سے زیادہ ڈاو¿ن لوڈ ہونے والی ایپ بن چکی ہے اور اس نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ کہنے کو ٹک ٹاک بڑی عمر کے لوگوں کے لئے نہیں اور اِس کی مرکزی مارکیٹ تیرہ سے چوبیس سال کے لوگ ہیں ‘یہ اصل میں انٹرنیٹ کے تماشے میں خود کو پھینکنے کی رضامندی ہے۔ انٹرنیٹ پر کسی سے ملنے اور پھر انھیں فالو کرنے یا انہیں حمایتی پیغامات بھیجنا ایک خاص طریقہ ہے۔ تبادلہ¿ خیال سوالات پوچھنا‘ اہم مسائل پر حمایت کرنا یا ایپ کی دنیا میں احتجاج نے ہم خیال لوگوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انٹرنیٹ نے دنیا کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اگر سال 2020ءسے سبق لیتے ہوئے کمپیوٹروں کی مصنوعی ذہانت کا زیادہ استعمال صحت و تعلیم کے شعبوں میں کیا جائے تو اِس سے نہ صرف انسانی بقا ءو مستقبل محفوظ ہوگا بلکہ دنیا کو درپیش اجتماعی خطرات کے مقابلے اجتماعی حکمت عملی بھی وضع کی جا سکے گی جو وقت کی ضرورت ہے کہ نئی نسل کو نفرت نہیں بلکہ محبت اور انسانیت کے احترام کا عملی درس دیا جائے تاکہ وہ کمپیوٹروں کی طرح جاندار ہونے کے باوجود بھی بے جان نہ رہیں۔