کہانی گھر گھر کی

 بچوں کے امی ابو نے بوریابستر اٹھایا ہوا ہے اور جا رہے ہیں‘ابو نے اپنی کتابیںساتھ لے لی ہیں ‘ان کی بیگم نے اپنا ضروری سامان ایک بیگ میں ٹھونس دیا ہے ۔ہفتہ کا دن ہے شام کا عالم ہے ‘پوچھا خیر تو ہے یہ روزانہ کا قافلہ آج کے دن کس سمت کو رواں دواں ہے ‘جواب ملا او رجواب درست تھا۔ ہم نانی کے گھر جا رہے ہیں‘کیوں بھیا میں نے بچوں کے بابا سے دریافت کیا‘جواب ملا اور یہ جواب بھی درست تھا کہ ہم کل آئیں گے۔ مگر پھر پوچھنے کی زحمت دی ۔ وہ تو ٹھیک ہے ،مجھے معلوم ہے یہ معمول بن چکا ہے ،مگر آج کوئی خاص پروگرا م ہے کیا،خاتون بیچ میں بول پڑیں ،یہاں گیس نہیں ناں،بچوں کو سردی لگتی ہے ،امی کے گھر میں سوئی گیس ہے اور رواں دواں ہے پھر چوبیس گھنٹے ہے چونکہ وہاں گیس ہیٹر بھی لگا ہوتا ہے ۔ بچوں کا وہا ں بہت دل لگتا ہے ۔ہمارے ہاں تو سلینڈر پر ہانڈی پکے یا اس سے کمرہ گرم کریں۔ پھر ایک کمرہ تو نہیں ۔چار کمروں کے ساجھے کے مکان میں چار چار دیوارانیاں ہیں ۔پھر دو گلیاں چھوڑ کر نند بھی خیر سے بال بچوں سمیت آ جاتی ہے ۔کیونکہ کل اتوار ہے ۔اس لئے بچے بھی آپس میں لڑیں گے ۔سو بچے خوش ہوتے ہیں کہ نانی کے گھر میں ہوں۔ میںنے کہا بچے تو بچوں کے ساتھ خوش ہوتے ہیں۔تنہائی میں کبھی خوش نہیں ہوتے ۔دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کر اودھم مچا کر دھما چوکڑی میں ہنستے کھیلتے ہیں۔ان بچہ لوگوں کو ان عجیب بادشاہوں کو سردی نہیں لگتی ۔یہ توبڑوں کواحساس ہوتا ہے کہ ہمارے بچے کو سردی لگ رہی ہے۔بچے دادی کے گھرمیں خوش ہوں گے کہ یہاں دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔مگر اس وقت مجھے اس سوچ نے آن گھیرا کہ واقعی سوئی گیس کے قحط نے بہت گھرانوں کے اتفاق او راکٹھ کی مالا کا دھاگہ توڑ دیا ہے ۔کہیں کسی نانی کا دل اپنے گھر میں نہیں لگتا اور وہ بٹیا رانی کے جلتے گیس ہیٹر والے گھر میں آن موجودہوتی ہیں ۔کیونکہ ان کی بوڑھی ہڈیو ں کوتپش درکار ہے ۔سو ا ن کی دختر ِ نیک اختر کے گھرکسی علاقے میں پائپوں میں گیس ایسے آتی ہے جیسے نلکوں میں سرکاری ٹیوب ویل کا پانی آتا ہو۔صاحبان ان دنوں تو سردی زیادہ ہے ۔نانی کے گھر گیس کے ہیٹر کے لئے جانے کا معاملہ مشکوک اگر نہیں تو یقینی ضرور ہے ۔ پھر کہیں نانی اماں کا اپنی اولا د کے گھر آجاناکہ بیٹی کے گھرگیس کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔یہ معاملہ بھی قابلِ اعتبار ہے ۔گیس کی لوڈشیڈنگ نے پورے ملک میں یہی ماحول بنا رکھا ہے بلکہ بعض ہمشیرہ گان جو آئے دن بھائیوں کے گھر پہنچی ہوتی ہیں ۔ وہ بھی اس سردی کے موسم میں گھرمیں مقید ہیں ۔ان کی داستان الگ ہے کیونکہ خود ان کے گھر میں بجلی کے ہیٹر لگے ہیں ۔ ان کے بچے اس بار ماموں کے گھر اس لئے نہیں جا رہے کہ وہاں چولھوں میں گیس نہیں ۔ جب یہ حالت ہو تو گیس کا ہیٹر وہاں کہاں جلے گا۔کوئی کسی رشتہ دار کے گھر جارہاہے اور کوئی کسی بہت قریب کے رشتہ دارکے گھر نہیں جا رہا۔ اس نے اپنے گھر کے گرم ماحول میں خود کو انجانی سی قرنطین کی تنہائی میں گھیر رکھا ہے۔ پھر اگر گیس کی مصیبت نہ بھی ہو تو ان دنوں چونکہ عالمی وائرس کا دھندہ اپنے عروج پر ہے اس لئے ٹھنڈ کے باوجوداپنے گھر ہی پر رہنے والے زیادہ صحت مند رہیں گے۔ اگرچہ گھر میں گیس نہ بھی ہو۔مگر یہ نانی کے گھر جانے سے بدرجہا بہتر ہے ۔کیونکہ کوروناکیا پتا کہاں آمنے سامنے آ جائے۔ قدیم یونانیوں نے عشق کے دیوتا کے بارے میں یہ بات نکالی تھی کہ یہ ایک بچہ ہے جو گھوڑے پر سوار ہے جس کی کمر سے باندھے ہوئے تیروں والے تھیلے میں بہت سے تیر ہیں ۔ یہ گھوڑے پرسوار ہے اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے مگر تیر چلانے سے باز نہیں آتا۔ ایک تیر نکالتا ہے اور چِلے میں جوڑ کر دائیں بائیں یہاں وہاں اِدھر اُدھر چلارہاہے ۔جو بھی اس کی زد میں آیا بس آگیا۔ ان دنوں کی وبا کا بھی یہی عالم ہے کہ نانی کا گھر ہو یا دادی کا گھر ہو یا ماموں یا چچا ہر ایک مقام پر یہی کورنا ایک چیتے جیسے تیز چوپائے پر سوار ہے جس کی آنکھوں پر پٹی بھی نہیں بندھی ہوئی ۔کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس کے ترکش میں تیروں کا کوٹا ختم بھی نہیں ہوتا۔تیر پہ تیر چلارہاہے اور ہر راہگیر یاکہیں بیٹھے شخص پربھی کمان میں تیر جڑ کے کھینچ مارتا ہے ۔ یونان والا گھڑ سوار تو شاید کسی کا لحاظ کرلیتا مگر یہ برق رفتا رسواری والا تو کسی مالدار کسی بزرگ کسی نیک نفس کا کسی بڑے عہدے والے کاکسی بڑے کھلاڑی اور سیاست دان تک کا لحاظ نہیں کرتا۔ بلکہ بعض علاقوں میں تو گیس وافر بھی ہے او رچوبیس گھنٹے ہے پھر مفت بھی ہے ۔اس نایاب شے کی وافر اور ہمہ وقت دستیابی تو سمجھ میں آتی ہے مگر مفت کا معاملہ تفصیل طلب ہے مگر یہ کہانی پھر سہی ۔