جاندار اوربے جان کا توازن

ماحو لیات اور مو سمیاتی تغیر کے لئے وزیر اعظم کے معاون خصو صی ملک امین اسلم نے کہا ہے کہ ہمارا مقصد پا کستان کو تر قی پذیر مما لک میں ماحولیاتی توازن کا نمو نہ بنا نا ہے کیونکہ مو سمیاتی تغیر اور عالمی حدت کے اس دور میں پا کستان ماحو لیاتی خطرات کا مقا بلہ کر رہا ہے جنگلات اور جنگلی حیات کا تحفظ ، آبی آلو د گی سے حفا ظت اور قابل تجدید ذرائع توا نائی کا حصول ہمارے اہداف میں شامل ہیں ما حولیاتی توازن ایک فنی اور تکنیکی اصطلاح ہے اس کا سادہ اور آسان مفہوم یہ ہے کہ کر ہ ارض پر جانداروں اور بے جان اشیاءکی تعداد اور وزن میں منا سب توازن ہو اگر بے جان چیزوں کا ڈھیر لگ جائے گا تو جاندار مخلوق کےلئے جینا مشکل ہو جائے گا مو جو دہ حا لات میں سائنسدانوں نے خبر دار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ توازن بگڑ نے والا ہے ما ہرین نے جو اعداد وشمار پیش کئے وہ عقل کو حیران کر دینے والے ہیں مثلا ً غور کیجئے کہ اس وقت کر ہ ارض پرحیوا نات اور نبا تات کی جو انواع سانس لیتی ہیں اور خواراک حا صل کر تی ہیں ان کی مجمو عی تعداد 10کھر ب ہے اور خطرے کی بات یہ ہے کہ کرہ ارض پر انسانی آبادی نے لوہے، پلاسٹک، پتھروں اور چٹا نوں سے جو ما ل تیا ر کیا ہے اس کا وزن بھی 10کھرب میڑک ٹن کی تعداد میں ہے آگے امکان یہ ہے کہ آنے والے 100 سالوں میں جا ندار اشیاء، حیوا نات اور نباتات کی انواع میں کمی آئے گی کیونکہ گذشتہ 100سالوں میں ایساہی ہوا ہے اس کے مقابلے میں لوہے، پلاسٹک اور پتھروں کا وزن مزید بڑھ جائے گا ہمارے کارخانے ، بازار، پلازے اور آسمان کو چھو نے والی عما رتیں جاندار مخلوق کے لئے زہر اگلنے کا عمل مزید تیز کریں گی‘ ہمارے کا رخانے مزید آلودگی پیدا کریں گی اور ہماری آبادیوں کا ٹھوس یا مائع فضلہ ماحول کے لئے مزید خطرات پیدا کرے گا عام زبان میں اس کو بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ جاندار مخلو قات میں کیڑے مکوڑوں کی 10 لاکھ اقسام پائی جا تی ہیں شہر ی اور دیہی بستیوں میں عام طور پر نظر آنے والی مخلوق چیو نٹی ہے جو کیڑے مکوڑوں کی اقسام میں سے ہے اس وقت انسا نی آبادی نے لو ہے ، پتھر اور پلاسٹک کی مصنو عات کے ذریعے چیو نٹی کے اوپر ایک میٹرک ٹن غیر ضروری اور غیر فطری وزن ڈال دیا ہے وقت گذر نے کے ساتھ اس وزن میں اضا فہ ہورہا ہے اس بیاں کو مزید آسان لفظوں میںپیش کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے دیہات اور شہروں میں گذشتہ 100 سالوں کے اندر پر ندوں کی کم از کم 25اقسام معدوم ہو چکی ہیں 1960اور 1970کے عشروں میں ڈی آئی خا ن ، سوات ، کوہستان اور چترا ل میں جو پر ندے اڑتے پھرتے یا چہکتے، چگتے نظر آتے تھے ان میں سے کئی پر ندے آج نظر نہیں آتے چڑیوں کی انواع بھی گُم ہو گئی ہیں عقا بوں کی انواع بھی معدوم ہو چکی ہیں یہ انواع کیسے معدوم ہو گئیں ؟ عام آدمی اس سوال کا ایک جواب دیتا ہے ہم نے کیڑے مار دواوں کا سپرے کیا ، ہم نے مٹی میں کیمیا ئی کھا د کا زہر ملایا ، ہم نے پا نی میں بازار ، گھر وں اور کا رخا نوں کا خطرنا ک زہر ملا دیا ہم نے جا ندار انواع کے جینے کے راستے بند کر دئیے قرآن پاک میں آیا ہے ”خشکی اور تری میں انسان کے کر توتوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا “ نیپا لی ز بان کا شاعر کہتا ہے ”اے آدم کی اولا د ! تو نے درختوں کو کاٹ کر روپیہ بنا لیا ، پرندوں اور جا نوروں کا شکار کرکے روپیہ بنا لیا تمہاری آنے والی نسلوں کے لئے روپیہ کے سوا کچھ بھی نہیں بچا کیا تمہاری آنے والی نسلیں روپیہ کھا کر گذر بسر کریں گی ، ہماری حکومت کے سامنے جا ندار مخلوق اور بے جان اشیاءمیں توا زن پیدا کر نے کا ایسا ہی چیلنج ہے وزیر اعظم کے معا ون خصو صی نے اسی چیلنج کی طرف اشارہ کیا ہے ۔