بارعایت گرانی

ناقابل یقین ہے کہ مہنگائی پر جس قدر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ اِس کی شرح میں اُسی قدر اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ حکومت کو مہنگائی اور عوام کی کم ہوتی قوت خرید کے بارے علم نہیں لیکن جب وفاقی وزرا بھی مہنگائی کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں تو عام آدمی کی تشویش میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ مہنگائی کرنے کے دعوو¿ں اور زمینی حقائق میں تال میل نہیں۔ رواں ہفتے اَنڈوں کی قیمتیں 200 سے 240روپے فی درجن جیسی تاریخ کی بلند ترین سطح پر برقرار ہیں اور اطلاعات کے مطابق اِس بات کا نوٹس وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے بھی لیا‘ جنہوں نے انڈوں اور بناسپتی گھی کے بڑھتے ہوئے نرخوں کو کنٹرول کرنے کےلئے وزارت تجارت کو ذمہ داری سونپی ہے۔ ”نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی“ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عبدالحفیظ شیخ نے صوبائی حکومتوں کو انڈوں اور گھی کی قیمتوں کی کڑی نگرانی اور سیکرٹری تجارت کو صوبائی حکومتوں کے نمائندوں اور ’ایف بی آر‘ سے ملاقات کرنے جیسی ہدایات دیں۔ مذکورہ اور دیگر اجلاسوں اور بیانات سے تو یہی تاثر مل رہا ہے مہنگائی حکومتی فیصلہ سازوں کےلئے بھی حیران کن ہے‘ جیسے کسی کو بھی علم ہی نہیں کہ مہنگائی کیوں اور کیسے ہو رہی ہے؟زمینی حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف دور حکومت کے پہلے دو برس میں ”غذائی قلت کے شکار“ لوگوں کی تعداد میں حسب وعدہ کمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ملک میں سال 2016ءمیں مرغی کے گوشت کی فی کس کھپت 9کلوگرام سالانہ تھی جو اب کم ہوکر 7کلوگرام سالانہ رہ گئی ہے جبکہ دنیا میں مرغی کے گوشت کی کھپت 40کلوگرام فی کس سالانہ اور انڈے 300فی کس سالانہ کے تناسب سے استعمال کئے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ¿ صحت کے مطابق کسی انسان کے لئے یومیہ ستائیس گرام حیوانی پروٹین کا استعمال ضروری ہے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں سترہ گرام ہے۔ اس طرح ہر پاکستانی دس گرام یومیہ پروٹین کی قلت کا شکار ہوتا ہے۔ پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے مطابق ”مرغی مہنگی نہیں ہوئی بلکہ اس کی قیمت اور لاگت میں توازن قائم ہوا ہے۔ مرغی اور انڈے کی قیمت میں اضافے کی بنیادی وجہ طلب و رسد کا فرق ہے اور تیسری وجہ روپے کے مقابلے ڈالر مہنگا ہونا ہے۔ پولٹری اب بھی سستا ترین گوشت فراہم کرنے والی صنعت ہے۔“ پولٹری ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سال سے مرغ بانی کرنے والے نقصان اٹھا رہے ہیں‘ جس کی وجہ سے پچیس فیصد پیداواری صلاحیت کم ہوگئی یعنی اگر چند ماہ قبل تک بیس ہزار افراد مرغبانی سے وابستہ تھے تو ان کی تعداد کم ہوکر پندرہ ہزار رہ گئی ہے اور اس کی وجہ مسلسل ہونے والا نقصان ہے۔ زندہ مرغی کا کاروبار بہت ہی مشکل ہے۔ جب مرغی مارکیٹ کرنے کے قابل ہوجائے تو اس کو ایک گھنٹہ رکھنا بھی نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے جب فروری میں کورونا وبا کی وجہ سے اچانک لاک ڈاون ہوا تو مرغی کی طلب بھی کم ہوگئی جبکہ رسد اپنی جگہ برقرار تھی۔ پاکستان میں یومیہ 80ہزار کلوگرام مرغی کا گوشت سپلائی کیا جاتا ہے‘ اگر طلب کم ہوگی تو مرغی کی قیمت گرجائے گی کیونکہ پاکستانی تازہ گوشت کھانے کے عادی ہیں۔ لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے فارمر کو مرغی پیداواری لاگت سے بھی کم قیمت پر بیچنا پڑی۔ جب لاک ڈاون کھلا اور پھر دوبارہ مرغی کی فارمنگ کی گئی تو اس مرتبہ مون سون کی بارشوں نے کسر پوری کردی۔ سیلاب اور بارش کی وجہ سے مرغبانوں کا ذخیرہ یا تو بہہ گیا یا پھر مرگیا اور جو بچ گیا اس کی سیلاب کی وجہ سے نقل و حرکت نہ ہوسکی اور پھر مرغبانوں کو مزید نقصان اُٹھانا پڑا۔ ڈھائی کلوگرام فیڈ کھانے سے مرغی کا ایک کلو گرام وزن بنتا ہے اور بسا اوقات زندہ مرغی کی فی کلوگرام قیمت فارم پر 300روپے سے تجاوز کر جاتی ہے۔ مرغی کی طلب میں کمی‘ مسلسل نقصان اٹھانے اور فیڈ کی مہنگائی کی وجہ سے بریڈرز جو چوزوں کا کاروبار کرتے ہیں انہوں نے اپنے زائد العمر مرغی ذبح کرنی پڑتی ہے تاکہ فیڈ کی بچت ہو سکے۔ مرغی کا ایک چوزہ جو تیس روپے میں ملتا تھا اُس کی قیمت ساٹھ روپے ہے۔ بریڈرز کے قبل از وقت ذبح کردینے سے نئے بریڈرز کی تیاری میں وقت درکار ہوگا۔ پولٹری صنعت میں 725بریڈرز 37لاکھ 50ہزار کلوگرام گوشت کی پیداوار کرتے ہیں اور اس حساب کتاب میں کچھ گڑبڑ ہوجائے تو گوشت کی فراہمی کا نظام متاثر ہوجاتا ہے اور انڈے کی قیمت بھی اِنہی وجوہات کی بنا پر بڑھی ہے۔ تکنیکی اُور معاشی اعدادوشمار اپنی جگہ لیکن مرغی اور اَنڈوں جیسی بنیادی ضرورت کی قیمت کم کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ یہ آسانی سے دستیاب ہوں۔