شور کیا ہے؟

اس کی تعریف کرنا مشکل ہے ۔ بلکہ یہ آسان ہے کہ شور ناپسندیدہ آواز کو کہتے ہیں ۔اب ڈھول بج رہے ہیں۔ نقاروں پر چوٹ پڑ رہی ہے۔ شادی بیاہ ہے یا میلے کا یا میلے کا سا سماں ہے ۔ بارات کا موقع ہے اور دولھے کا سہرا سہانا لگ رہاہے ۔ دولھے راجہ کے قریب ترین رشتہ دار دوست یار خوشی کے نشے میں جھوم میںرہے ہیں سرافراز ہیں۔ انھیں بینڈ باجہ کے ڈھول پیٹنے کی آوازیں اچھی لگ رہی ہیں۔دولھے میاںکی والدہ ماجدہ خوشی سے نہال ہیں اور والدِ گرامی سہرے میں چھپے چاند چہرے پر نوٹوں کی بارش کر رہے ہیں۔ ایسے میں سیٹیاں بھی بج رہی ہیں اور مستانہ ماہی ٹائپ کے لڑکے بالے منہ سے بے ہنگم آوازیں بھی نکالتے پڑے ہیں۔ مگر اس ہجومِ بے کراں میں کوئی ایک ہوگا کہ یہ اونچی نیچی آوازیں یہ چوٹ اس کے دل پر لگارہی ہوں گی۔ کیونکہ ہر ایک کو تو شور پسند نہیں ۔مگر خود جس کو یہ شور پسند نہیں اسے کوئی اور شور ضرور پسند ہوگا۔ مقصد یہ ہوا کہ پسندیدہ آواز کو شور نہیں کہیں گے۔ جلسے جلوسوں میں سیاست کے متوالے مست و سرشار چیخ رہے ہیں نعرے لگ رہے ہیں۔سپیکر پر سے گانے بج رہے ہیں۔اپنے اپنے لیڈروں اور اپنی سیاسی پارٹیوںکے رہنما¶ں کے نام لے کر سیاست چمک رہی ہے ۔ دن کو بھی جیسے بادلوں کے درمیان میں سے بجلی چھلانگ لگا کر چیتے کی سی تیزی کے ساتھ جھلک جھلک جائے۔ مگر یہ تو شور نہیں ہوگا۔ یہ تو ان کی اپنی پسند ہے جن کو یہ ہلڑ بازی اور ہاہاکار پسند ہے ۔مگر وہ جن کو سیاست سے دل چسپی نہیں ان کے لئے یہ آوازیں ڈھیچوں ڈھیچوں کی طرح کانوں کو بری لگ رہی ہیں۔ڈھول پر تو بچہ بھی جھومے لگتاہے جس کو آپ نے گود میں اٹھا رکھا ہو۔ ہمسایہ آپ کا دروازہ کھڑکھڑا سکتا ہے کہ آپ کے ہاں سے ڈیک پر گانوں کی آواز ہے۔ اس کو ازراہِ کرم آہستہ کیجئے ۔کیونکہ میں سٹڈی کر رہا ہوں کل میرا پرچہ ہے ۔ کوئی دوسرا ہمسایہ آ کر خو دآپ کے دروازے پر دھمکار کر دے شور مچائے کہ میرے گھر والدہ بیماری کے بستر پر ہے اور آپ کو اونچی آواز میں گانوں کی پڑی ہے ۔ مگر خود وہی شکایت کرنے والے ہمسایے اپنی اپنی باری پر اپنی شادیوں میں اسی گلی میں خوب دھوم دھڑکا کریں گے ۔ڈھول باجے دم دم دم کا گانالگا ہوگا۔ شور برا لگتا ہے مگر ناپسندیدہ آوازوں کا شور دل پر گراں گذرتا ہے ۔اگر موڈ خراب ہو تو کوئل کی کوکو کی آواز بھی کسی باغ کسی لان اور سبزہ زارو گلزار میں کوے کی آواز معلوم ہوگی ۔ کیونکہ دل کی بہار اچھی ہے کہ باغ کی بہار ۔خوش آواز پرندوں کی آوازیں اس وقت بری معلوم ہوتی ہیں جب آدمی غمزدہ اور کڑھن کے مارے جلا ہوا بھنایا ہوا بیٹھا ہو۔اس وقت تو یہ آوازیں کوے کی کائیں کائیں معلوم ہونے لگتی ہیں۔اس وقت یہ سب کچھ گھوڑے کا ہنہنانا اور ہاتھی کا چنگھاڑنا اور شیر کا دھاڑنا معلوم ہوگا۔ بلکہ غالب کو تو پھو ل کی خوشبو بری لگی ۔ اس نے کہا ” محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے ۔ کہ موجِ بُوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا“۔خوشبو سے بھلا کسی کے ناک میں دم ہو سکتا ہے ۔مگرایسا ہوتا ہے بلکہ پشاور کے عزیز اعجاز نے کہا ” جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے ۔موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے“۔ بلکہ صاحبان کہنایہ ہے کہ اگر کسی کو پرندوں کی چہکار بری لگے اور خوشبو سے دشمنی ہو جائے تو اس کا تعلق نفسیات سے ہے ۔بلکہ یوں کہئے کہ اس کی نفسیاتی بیماری ہے ۔اب توکوئی باپ روتی ہوئی بچی کا گلا گھونٹ کر اسے جان سے مار رہاہے ۔کیونکہ وہ شور کر رہی ہے۔ کوئی ماموں اپنی بھتیجی کو پیٹ کر زخمی کر رہاہے کہ وہ خواہ مخواہ شور کر تی ہے ۔یہ سب نفسیاتی بیماریاں ہیں کہ اگر کوئی کسی کو اس وجہ سے ہلاک کردے کہ وہ شور کر رہاہے ۔استاد نے بچے کو مار مار کر لہولہان کر دیا کہ کیونکہ وہ شور کررہا تھا۔پھر چچا نے بھتیجی کو زخمی کر دیا وہ شور کررہی تھی۔ یہ چیزیں آج کل ٹی وی چینل کے خبرناموں میں دکھلا رہے ہیں۔ بہت غلط کا م ہے اس میں کیا دوسری رائے ہے ۔مگر انھوں نے ایساکیوں کیا۔ذرا اس پر بھی غور کیا جائے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں لوگ ذرا ذرا سی بات پراتنی انتہاتک کیوں پہنچ جاتے ہیں ۔ہمارے ہاں تھوڑے مسائل ہیں ۔پھر آج تو مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ کسی میں برداشت ہو یہ ممکن نہیں رہا۔ لوگ نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔