کورونا وبا کی وجہ سے قومی کرکٹ ٹیم کے پست ہوئے حوصلے بحال ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ توانائیاں اور اعتماد لوٹ رہا ہے اور اِس کا فائدہ مستقبل میں ہونے والے مقابلوں میں نظر آئے گا۔ نیوزی لینڈ کے جاری دورے میں پاکستان نے سیریز ہارنے کے بعد آخری مقابلہ جیت کر محض دل جیتنے پر ہی اکتفا کیا کیونکہ سیریز جیتنا پاکستان کے بس کی بات نہیں لگتی‘ کم از کم گزشتہ دو برس میں کھیلی گئی کرکٹ کی داستان سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔ نیپیئر میں کھیلے گئے تیسرے ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں جیتی ہوئی بازی پاکستان کے ہاتھوں سے نکلنے ہی والی تھی کہ آخری اوور کی چوتھی گیند پر افتخار نے ایک کرارے چھکے سے میچ کا فیصلہ کردیا حالانکہ پاکستان کو آخری تیئس گیندوں پر صرف تینتیس رنز کی ضرورت تھی اور اس کی آٹھ وکٹیں ابھی باقی تھیں لیکن اس کے باوجود مقابلہ آخر تک چلا گیا بلکہ یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ حریف کے جبڑوں سے جیت چھیننا پڑی۔ آخری چند اوورز میں خوشدل شاہ‘ فہیم اشرف اور شاداب خان کے یک بیک آو¿ٹ ہونے اور آخری اوور میں رضوان کی اننگز کے خاتمے سے پاکستان کی کہانی تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ یہ تو افتخار کا بھلا ہو کہ ‘سو سنار کی’ کے مقابلے میں ‘ایک لوہار کی’ دکھا دی اور یوں نیوزی لینڈ کا ہوم گراو¿نڈ پر مسلسل گیارہواں انٹرنیشنل میچ جیتنے کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا!آخری ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں کامیابی نے پاکستانی ٹیم کے حوصلے ضرور بڑھائے ہوں گے۔ خاص طور پر انفرادی سطح پر کہ جہاں رضوان اور فہیم اشرف نے اپنی اہمیت اور اہلیت کو ثابت کیا اور حفیظ نے تو بہت سے ناقدین کے منہ بند کروا دیئے ہیں۔ لگتا ہے ناقدین اعداد و شمار نہیں دیکھتے۔ حفیظ کےلئے تو سال دوہزار بیس بہت ہی شاندار رہا‘ جس میں انہوں نے دنیا کے کسی بھی دوسرے بیٹسمین سے زیادہ رنز بنائے۔ دس میچوں میں تراسی کے ناقابلِ یقین ایوریج اور ایک سو باون سے زیادہ کے حیران کن ’سٹرائیکنگ ریٹ کے ساتھ چارسو پندرہ رنز معمولی نہیں۔ سال کے بڑے حصے میں نمبر ون ٹوئنٹی بیٹسمین رہنے والے بابر اعظم کے آٹھ میچوں میں صرف 276رنز ہیں‘ وہ بھی پچپن کی اوسط اور ایک سو چوالیس کے اسٹرائیک ریٹ سے۔ گزشتہ تقریباً ہر سیریز میں حفیظ کی کوئی نہ کوئی شاہکار اننگز موجود ہے جیسا کہ نیوزی لینڈ کے اس دورے پر اکتالیس اور ننانوے رنز کی اننگز سے پہلے برطانیہ میں چھیاسی اور اُنہتر اور بنگلہ دیش کے خلاف ستاسٹھ رنز کی اننگز حالانکہ دوہزاراُنیس کے سال میں حفیظ نے ایک بھی عالمی ٹی ٹوئنٹی مقابلہ نہیں کھیلا تھا۔ لیکن یہ نتیجہ پاکستان کے شایان شان نہیں۔ ایک ایسی ٹیم جو ٹی ٹوئنٹی کی عالمی چیمپیئن رہی ہو اور سب سے لمبے عرصے تک نمبر وَن رہنے کا اعزاز بھی رکھتی ہو بلکہ عالمی ٹی ٹوئنٹی میں اس سے زیادہ کامیابیاں آج تک کسی نے حاصل نہیں کیں‘ اس کی حالیہ کارکردگی مایوس کن نہیں بلکہ بھیانک ہے۔ خاص طور پر گزشتہ دو برس میں تو پاکستان نے کسی قابلِ ذکر ٹیم کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کی اور آٹھ میں سے صرف دو سیریز بنگلہ دیش اور زمبابوے کے خلاف اور وہ بھی ہوم گراو¿نڈ پر جیتی ہیں۔ باقی جہاں بھی گئے‘ شکست کی داستان چھوڑ آئے ہیں یعنی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کے زوال کا آغاز ہوچکا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی میں کرشماتی (جادوئی) بہتری کیسے آئے گی اُور شائقین کرکٹ کے شکستہ دلوں کو کیسے تسلی ہوگا‘ اِس سلسلے میں زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔