امکان ہے فروری یا مارچ میں سینیٹ کے آدھے ارکان کا انتخاب ہوگا۔یہ ایک مستقل قانون ساز ادارہ ہے۔ فی الحال اس کے ک±ل 104 ارکان ہیں جن میں ہر صوبے سے ک±ل 23، قبائلی علاقوں سے 8 اور اسلام آباد سے 4 ارکان چھ سال کےلئے منتخب کیے جاتے ہیں۔ سینیٹ کے آدھے ارکان کا ہر تین سال بعد انتخاب ہوتا ہے۔ دفعہ 59 کے مطابق ہر صوبے کی مختص نشستوں کو پ±ر کرنے کےلئے انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت واحد قابلِ انتقال ووٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔ آرٹیکل 226 کہتا ہے وزیراعظم اور وزراءاعلیٰ کے انتخاب کے سوا سب انتخابات خفیہ رائے دہی سے ہوں گے چنانچہ سینیٹرز اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمینِ سینٹ کا انتخاب بھی خفیہ رائے دہی سے ہوتا ہے۔ خفیہ رائے دہی کا نظام دو بنیادی توقعات پر قائم ہے۔ ایک کہ رائے دہندہ باشعور اور ایمان دار ہے موقع ملے تو وہ صحیح امیدوار کو منتخب کرے گا اور دوسرا یہ کہ اسے آزادی سے فیصلہ کرنے اور کسی بھی انتقامی ردعمل سے بچانے کےلئے ا±سے تنہائی میں یہ فیصلہ کرنے کا موقع دینا ضروری ہے کچھ عرصے سے ارکانِ سینٹ کے براہ راست انتخاب کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ اس کے لئے یا تو پورا صوبہ ایک حلقہ ہو اور عوام ہر تین سال بعد پارٹیوں کو ووٹ دیں جن سے پہلے سے ان کے نامزد کردہ سینیٹروں کی لسٹ لی جاچکی ہوگی۔ یا صوبائی اسمبلی کے چار پانچ حلقوں کو ملا کر ایک سینیٹ حلقہ قائم کیاجائے جس میں عوام امیدواروں کو براہِ راست ووٹ دیں۔ دونوں طریقوں میں ایک تہائی یا آدھی نشستیں ماہرین، اقلیتوں اور خواتین کےلئے مختص ہوں گی جن کا انتخاب براہ راست نہیں بلکہ پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر نامزدگی کے ذریعے ہوگا لیکن ان دونوں طریقوں کےلئے ہر تین سال بعد عوامی انتخابات درکار ہوں گے جو ظاہر ہے مشکل اور مہنگا کام ہے۔۔ یہی وجہ ہے پورے سینٹ کی کمیٹی نے بھی 2015 میں ایک رپورٹ میں سینیٹرز کے براہ راست انتخاب کو آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم قرار دیاتھا۔آئین کی دفعہ 59 شق 2 کے تحت کسی صوبے کی سینٹ میں نشستوں کو پ±ر کرنے کےلئے انتخاب متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت اور واحد قابلِ انتقال ووٹ کے ذریعے ہونا ہے۔ اس دفعہ میں تناقص ہے۔ ایک طرف کہا گیا ہے سینٹ کی نشستیں لازمی صوبائی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے تناسب سے ہوں جب کہ دوسری طرف ا±ن نشستوں پر خفیہ رائے دہی سے انتخاب کی بات کرکے یہ نشستیں دوسروں کےلئے بھی جیتنے کا امکان پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں پی ٹی آئی کی نشستیں اوروں نے ہتھیا لی تھیں۔ ظاہر ہے یہ آئین کی منشاءکے خلاف ہے۔ اگر ووٹ کسی کو بھی دیا جاسکتا ہو تو پھر متناسب نمائندگی کی بات کیوں کی گئی اور اگر پارٹی پوزیشن اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہی ارکانِ سینیٹ منتخب کرنے ہیں تو پھر انتخاب کی بات کیوں کی گئی؟ یہ تناقص دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اب آئیے سینٹ کے موجودہ نظامِ انتخاب میں درکار اصلاحات پر بات کرتے ہیں۔ اگر خفیہ رائے دہی کو ہی برقرار رکھنا ہے تو پھر اس میں چند اصلاحات لائی جائیں۔1۔ آزاد امیدواروں پہ پابندی لگائی جائے کیوں کہ جس کا صوبائی اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی رکن نہ ہو وہ ظاہر ہے ارکان خرید کر ہی پاس ہو سکتا ہے۔2۔ ہر ووٹ پر صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے متعلقہ رکن کا نام لکھا ہو۔ آئین کی دفعہ 226 کے مطابق سینیٹ میں خفیہ رائے دہی ہوگی اس لئے اس میں ترمیم کرنا ہوگی تاکہ پارٹی سربراہ یا پارلیمانی قائد چاہے تو درخواست دینے پر کسی رکن کے ووٹ اسے دکھائے جاسکیں۔ اس طرح ہارس ٹریڈنگ کم/ختم ہو جائے گی۔3۔ جو ووٹ خراب ہو اور مسترد ہونے والا ہو اس رکن سے پریزائیڈنگ افسر پوچھ کر اس کی رائے دوبارہ معلوم کرلے اس طرح ووٹ خراب کرکے نتیجہ کسی اور کے حق میں کرنا ناممکن ہو جائے گا جیسا پچھلی دفعہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پانچ مسترد ووٹوں سے ہو چکا۔4۔ امیدواروں کی نامزدگی اور انتخاب میں پیسوں کا کردار ختم کرنے کےلئے پارٹیاں ا±ن اصلی کارکنوں کو ٹکٹ دیں جنہوں نے کم ازکم دس سال پارٹی میں گزارے ہوں۔ یوں کوئی پیسے والا سینیٹر ایک پارٹی سے استعفیٰ دے کر دوسری پارٹی میں شامل ہوگا تو چند روز بعد ہی وہاں دوبارہ سینیٹر نہیں بن سکے گا۔5۔ دفعہ 63 الف میں ترمیم کرکے سینیٹ انتخاب میں اپنی پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے یا نہ دینے یا بغیر اجازت غیر حاضر ہونے کو بھی کسی رکن کی نا اہلی کے اسباب میں شامل کیا جائے۔6۔ جو بھی کسی صوبے یا قبائلی علاقے یا دارالخلافہ سے انتخاب لڑنا چاہے اس کےلئے لازم ہو کہ وہ وہاں کم ازکم پانچ سال سے مستقل رہائش رکھتا ہو۔ صحیح تر راستہ یہ ہے کہ کسی صوبائی اسمبلی میں عام انتخابات میں پارٹی پوزیشن کی بنیاد پہ ہی وہاں کی نشستیں نامزدگی سے پ±ر کی جائیں متناسب نمائندگی کے امکان کو واحد قابلِ انتقال ووٹ اور خفیہ رائے دہی کے ذریعے دوبارہ انتخاب سے خطرے ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس اس کےلئے اس دفعہ کی شق 2 میں ترمیم کرکے ”واحد قابلِ انتقال ووٹ“ کی جگہ ”پارٹی سربراہ کی جانب سے نامزدگی“ کے الفاظ شامل کردینے ہوں گے۔تاہم ان سب کےلئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے جو حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں کی رضامندی سے ہی ہوسکتی ہے مگر ایسی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ کیا دونوں ملک اور جمہوریت کےلئے اپنی انا کی قربانی دے سکتے ہیں؟