ہیں کہ دسمبر آگیا ہے ۔ پھر یہ کہ سجنا آن ملو کیونکہ دسمبر جا رہاہے ۔ اس وقت توواقعی دسمبرجا رہا ہے ۔مگر کاش کوئی یہ کہے کہ عالمی سطح کا وائرس بھی جا رہاہے۔ دسمبر کو اداسی کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے ۔لوگ بھی کیا ہیں ۔صر صرکو صبا کہتے ہیں ۔کبھی کیا کبھی کیا کہتے ہیں۔ بس سوشل میڈیا ان کے ہاتھ لگا ہے ۔ جو جی چاہے اپنی اپنی وال پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ دسمبر کو اداسی کے ساتھ مکس کر دیا جاتاہے ۔حالانکہ ہر موسم میں خوشی او رغم کا میل ملاپ رہتا ہے۔ کوئی شادکوئی غمزدہ ہوتا رہتا ہے۔سال کے بارہ مہینے اور ہفتے کے ساتوں روز چوبیس گھنٹے یہی پہیہ گھومتا رہتا ہے۔کبھی خوشی کبھی غم۔ اب دسمبرمیں آکر مل جانے کی کیا تمنا اور کیا دعوت دینا اور خواہش کرنا ۔پھر اس کی ضرورت ہی کیا ہے ۔مگر یہ محسوسات کی دنیا ہے۔ شعر و ادب ہو یا انسانی جذبات ہوں کوئی کس وقت خفااور کوئی کس وقت ناراض اور اداس ہو تاہے ۔پھر کسی کی خوشی کا کوئی اور وقت مقرر ہے اور کسی اورکے خوش ہونے کا کوئی ٹائم فریم دوسراہے ۔یہ دنیا ہے ہر لمحہ بدلتی ہوئی صورتِ حال ہے۔خواہ کسی گھر کی ہو یا کسی کے اندرون مزاج اور شخصیت کی ۔مگر یہ اداسی کی مہینہ ہے تو پھر زیاں سے بچ جائیں تو کہیں اچھا ہے ۔جیسے پانی سے بجلی کشید کی جاتی ہے ۔یا کسی غیر مثبت میں سے مثبت چیزیں نکالی جاتی ہیں ۔اسی طرح اس اداسی کے موسم کو ضائع ہونے سے بچا کر اس میں خوشی اور سرور و انبساط کی مکسنگ کر دیں۔ فراز نے کہا ” یہ اداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں ۔کسی یاد کو پکارو کسی درد کو جگا¶“ ۔صاحبو یہ ٹھنڈے ٹھار موسم ہیں ۔جن کے لئے ہم پوری گرمی میں جھلسے جاتے ہیں ۔خواہش کرتے ہیں کہ سردیا ںپھر سے لوٹ آئیں تاکہ اس تپش سے نجات ملے ۔مگر جب جاڑے کا موسم آتا ہے توہمارے دلوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے او رہم یخی سے تنگ ہوکر فریاد کناں ہوتے ہیں کہ اب گرمی آ جائے۔ انسان بھی عجیب شئے ہے۔ تھوڑا ملے تو کہتا ہے زیادہ ملے ۔جب زیادہ ہوتو سوچتا ہے اور زیادہ مل جائے۔مگر یہ اداسیو ںکے دن نہیں ہیں۔ جیسا کہ نوشی گیلانی کی خوبصورت شاعری کہ ” زمانے والوں سے چھپ کے رونے کے دن نہیں ہیں۔ اسے یہ کہنا اداس ہونے کے دن نہیں ہیں“۔ان موسموں کو یونہی رائیگاں جانے نہ دیں۔ بلکہ ان دنو ںکی خوبصورت اور چمکتی ہوئی دھوپ تلے بیٹھ کر بہن بھائیوں کے درمیان میں بہو بیٹیوں کی سنگت میں یا نہ ہو تو دوستوں یاروں کی منڈلی میں قہوہ کا دور چلائیں اور سرکیاں لیں مونگ پھلی کھائیں مزے اڑائیں ۔مونگ پھلی کا کہا ہے ۔وجہ یہ کہ آج دکانوں پراس نعمت کے علاوہ اور دوسری نعمتیں غریبوں کی دسترس سے باہر ہیں ۔اپنوں کے درمیان دھوپ میں بیٹھے بیٹھے شام ہوجائے تو کیا مزا ہو ۔ کیونکہ سردی کی دھوپ بھی تو عارضی ہے ۔پل جھل ہے اور پل جھل نہیں ہے ۔پھر اس کے لئے اگلے دن کی صبح کا انتظار کرناپڑتا ہے ۔مگر دوسرے دن آسمان سے مینہ برس جائے تو وہی مزہ غارت ہو کر رہ جائے گا۔ اس لئے جو کچھ مہیا ہے اسی کا کافی و شافی جان کر اس سے مزہ لیں اور زندگی کو انجوائے کریں۔ اگر اُداسی ہے تو اُداسی کو قریب بھی پھٹکنے نہ دیں اور جان کر اس کو اپنے وجود سے الگ رکھیں ۔ کیونکہ یہ موسم اگر دوبارہ آئیں تو جانے کون ہو کون نہ ہو۔ اس لئے جو موجودہ طور پر دستیاب ہے اسی کو غنیمت جانیں اور اس سے لطف اندوز ہوں۔شاعر حضرات کا کیا ہے وہ تو معاشرے سے بالکل الگ ہو کر سوچتے ہیں ۔ مگر ہیں تو اسی معاشرے کے افراد۔ ہیں تو انسان اورپھر انتہائی حساس ۔ کسی عام سی بات کو دل پر لے لیتے ہیں او ر کسی بہت بڑی بات کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ ما بدولت بھی تو شاعری کا شوق فرماتے ہیں۔ شاعروں کے اندرون سے بھرپور نہ سہی مگر تھوڑی واقفیت ضرورہے ۔یہ تواداسی کے بہانے ڈھونڈتے ہیں ۔”قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے۔دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے“۔فراز بھی تو شاعر تھے اور بھرپور ۔ان کو بھی احساس ہے کہ دل ہے کہ مانتا نہیں ہے دل ناداں ہے اور دل تو بچہ ہے ۔دل تو شاعر کے کنٹرول میں خاص طور پر نہیں ہوتا اور عام انسان کے قابو میں عام طور پر نہیں ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ چھوٹی سی بات پر اپنی بھرپور جوانی اور رعنائی سے لبالب بھری زندگی کو یوں ضائع کردینا درست نہیں ۔