اقوالِ زریں کے نام سے تو ایک تماشا ہی بنا ہواہے۔ میڈیاکا کوئی میڈیم ہے جہاںبس ایک غو غا ہے ۔جس کے ہاتھ جو اچھی بات چڑھتی ہے وہ کسی کے نام سے بھی منسوب کر کے بھیج دیتا ہے ۔کل کو اگر میرے نام سے کوئی اچھی بات موبائل پر دھڑکے تو قطعاً یقین نہیں کیجئے گا ۔اپنے نام کاکہہ رہا ہوں ۔ہاں مگر ا س میں اگر کوئی اچھی بات ہو تو ضرور اپنا لیں۔ سوشل میڈیا ہے اور ہمارے بھائی بندہیں ۔پھر یہ بھائی لوگ فارغ بھی تو ہیںسو یہ لوگ اگر یہ کام نہ کریں تو اور کیا کریں ۔اگربرے کامو ںمیں پڑ جائیں اس سے تو کہیں اچھا ہے کہ اسی اقوالِ زریں کے شغل میں مصروف رہیں بلکہ ملوث رہیں۔ جہاں تک اقوال کی بات ہے وہ تو ٹھیک ہے ۔مگر ایک کاقول دوسرے نامور آدمی کے نام سے بھیج دیتے ہیں ۔پھر یہ کہ نہ تو کتاب کا حوالہ ہوتا ہے او رنہ ہی کتاب کے اوراق کے نمبر شمار کا ذکر ہوتا ہے ۔پڑھنے والا اس اچھی بات پر واوہ واہ تو کرتا ہے مگر قول کس کاہے اس پر وہ شک کا شکار ہو جاتا ہے ۔کیونکہ وہی قول اس نے پہلے کسی اور نامی گرامی شخصیت کے نام کے ساتھ سن رکھا ہوتا ہے ۔ اچھی باتیں تو سینکڑوں ہیں ہزاروں اور لاکھوں ہیں۔سب پڑھنے لائق ہیں اور قابلِ عمل ہیں ۔مگر مسئلہ یہ نہیں ۔ مسئلہ تو یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ مشہور قول کو بھی کسی گمنام شخصیت کے نام سے موسوم کر دیتے ہیں یا کسی گمنام قول کو کسی معروف بندہ کے نام سے جوڑ کر فخر سے آگے پیچھے کر کے داد سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اس پر ایک او رمسئلہ سر اٹھاتا ہے کہ بعض قول بھی اپنی نوعیت میں درست نہیں ہوتے ۔ان اقوالِ زریں میں جو بات کہی گئی ہوتی ہے وہ اپنے آپ میں غلط ہوتی ہے اور ازروئے عقل درست معلوم نہیںہوتی ۔مگر یہ صاحبان کسی نیک نام کے ساتھ نتھی کر کے آگے کر دیتے ہیں ۔ اب آدمی شک کاشکار ہوجاتا ہے۔ پوچھتا ہے کہ اے بھائی آپ نے جو قول بھیجا یہ کون سی کتاب کے کس صفحہ نمبر پر ہے ۔پھر اس کے بعد اقوالِ زریں بھیجنے والے کا جواب نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے بھی کہیں سے اسی طرح اڑاکر کاپی اینڈ پیسٹ کیا ہوتا ہے ۔یہ کام آج کل بہت آسان ہو چکا ہے۔ گوگل سے نوٹس بن رہے ہیں۔ ایم فل کے مقالے تیار ہورہے ہیں۔ کاپی پیسٹ سے کام چلاتے ہیں۔ مگر پکڑے جاتے ہیں۔ سو پھر سے مقالہ لکھ کر لانے کو کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ اساتذہ جن کو یہ کاپی او رپیسٹ کے ذریعے شیشے میں اتارنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی گھاگ قسم کے پروفیسر ہوتے ہیں۔ اڑتی چڑیا کے پر گننے والے ۔ ان کی آنکھوں سے سرمہ نکالنا آسان نہیں۔ کیونکہ یہ تو خود دوسرے کم نظر لوگوں کی نگاہوں میں سرمہ لگاتے ہیں کہ ان میں دیکھنے کی طاقت پیدا ہو۔وٹس ایپ پر ہو فیس بک پر خوبصورتی کا ایک ناد ر سا فریم بناکر اس میں کوئی قول ِ زر و سیمیں جوڑ دیا جاتا ہے ۔ فریم تو کمپیوٹرگرافکس کے ذریعے ہوتا بہت خوبصورت ہے مگر اس میں کہی ہوئی بات گھسی پٹی ہوتی ہے او رہم بچپن سے کہاوت کے طور پر سنتے چلے آتے ہیں۔مگر اس کو یہ مہربان اپنے حساب سے نیا کر کے کسی مفکر کے نام سے جوڑ کر آگے پیش کر تے ہیں ۔ علامہ اقبال کے کتنے شعر جو اقبال نے سرے سے کہے ہی نہیں وہ موبائل کی سکرین پر خوبصورت چمکدار اور جھلمل کرتے حاشیو ںکے ساتھ دوستوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں ۔ پھر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ لوگ ایسا کرتے کیوںہیں۔ مگر اس سے زیادہ حیرانی ان پر ہوتی ہے جو اس قسم کی غلط پوسٹ کو دادو تحسین کے ساتھ اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر کر دیتے ہیں ‘کس سن میں کس نے کیا کہا کسی کو کسی طرح کچھ معلوم نہیں۔مگر کوئی اچھی سی بات کو افلاطون کے نام کے ساتھ جوڑ کر فیس بک پر پھیلا دیں تو کون ہے جس کے پاس اتنا وقت ہے کہ آپ سے پوچھے کہ یہ قول کہاں لکھا ہے اور افلاطون کی کون سے نمبر والی کتاب میں درج ہے۔اب کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کی ڈھونڈیا کرے۔ ہا ںاگر یہ قول وصول کرنے ولا ریسرچ کا بہت کھلاڑی ہے تو اس کے پوچھنے پر یہ کہہ دینا کہ یہ تو افلاطون کی اس کتاب سے لیا ہے جو ابھی ڈائری کی صورت میں کسی عجائب گھر میں پڑی ہے ۔ مسئلہ اقوال زریں کا نہیں یہ تو نگینے ہیں جن پر عمل کرکے زندگی کا نقشہ بدل سکتا ہے ، مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات کہی گئی ہوتی ہے جس کو سمجھ کر اگر زندگی کا حصہ بنایا جائے تو معاشرے کاسدھار آسان ہوجاتا ہے ، مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے جس طرح شعر و شاعری کو سند اور ثبوت سے بے نیاز کردیاہے اور کس کا بھی شعر دوسرے شاعر سے منسوب کر دیتے ہیں اسی طرح ہم نے اقوال کے ساتھ بھی یہی عمل شروع کیا ہوا ہے کہ ایک شخصیت کی کہی ہوئی بات کو دوسری شخصیت سے منسوب کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے معلومات تو عام کر دیں مگر ان کے مصدقہ ہونے کے معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے۔