سیاست کے بدلتے روپ۔۔۔

شاخ نازک پر جو بھی آشیانہ بنے گا وہ نا پائیدارہو گا شاخ نازک پر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی روح رواں سیاسی پارٹیوں نے ایک آشیانہ تو بنا دیا ہے پر وہ پائیدار اس لیے نظر نہیں آ رہا کہ اس میں جو سیاسی پارٹیاں شامل ہیں ان میں صرف ایک ہی قدرے مشترک ہے اور وہ ہے عمران خان سے مخاصمت پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین کی مخالفت کی وجہ سے پی ڈی ایم کی ٹیم میں شامل سیاسی پارٹیاں ایک ہی سیاسی منڈیر پر بیٹھی ہوئی ہیں اس ملک میں پولیٹیکل سائنس کے طالب علموں کو کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ جماعت اسلامی سولو فلائٹ کیوں کر رہی ہے کیا اسے اپنے آپ پر اعتماد ہے کہ وہ تن تنہا سیاسی اکھاڑے میں اتر کر باقی دوسرے تمام سیاسی پہلوانوں کو الیکشن میں چت کر دے گی؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ سر دست پی ڈی ایم اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان رواں سیاسی دنگل کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور انجام کار مناسب وقت پر اپنا وزن اس سیاسی پارٹی کے پلڑے میں ڈالے گی کہ جس کے الیکشن میں جیتنے کے امکانات زیادہ روشن ہوں گے؟ لانگ مارچ کی تاریخوں کے تعین اور اسمبلیوں سے استعفے دینے کی تاریخ پر پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات دکھائی دے رہے ہیں چند دن پہلے تک تو اپوزیشن کی جماعتوں نے یہ تاثر دیا تھا کہ 31 دسمبر تک اپوزیشن جماعتوں کے تمام اراکین اسمبلی اپنی اپنی پارٹی کے قائدین کے پاس اپنے استعفے جمع کرا دیں گے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لانگ مارچ کی تاریخ کا بھی بہت جلد تعین کر دیا جائے گا تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ لانگ مارچ کا فلفور کوئی پروگرام نظر نہیں آ رہا اور اسے ملتوی کرنے کا یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ جنوری اور فروری میں اسلام آباد میں کافی پالا پڑتا ہے جو دھرنے کےلئے موزوں موسم نہیں اور یہ کہ یہ سیاسی عمل مارچ اپریل یا پھرا کتوبر تک موخر کیا جا سکتا ہے یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ اگر لانگ مارچ اور دھرنے کے پروگرام پر آئندہ ایک آدھ مہینے میں عمل نہیں کیا جاتا تو اس کے بعد تو پھر رمضان شریف ‘عیدین اور محرم الحرام کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اگر تو یہ پروگرام ہونے ہیں تو ان کو آئندہ دو ماہ تک ہو جانا چاہئے ورنہ پھر بصورت دیگر یہ اکتوبر 2021 تک ہوا میں معلق رہیں گے ۔ رہی بات اسمبلیوں سے استعفے کی تو اس بارے میں عرض ہے کہ سندھ کی حکومت پیپلز پارٹی کے پاس ہے ، آصف علی زرداری نہایت زیرک اور دوراندیش قسم کے سیاست دان ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسمبلیوں سے فورا اًستعفے سے صرف پی پی پی کو ہی نقصان ہوگا اگر اس الیکشن میں سینٹ میں کسی اپوزیشن سیاسی پارٹی کی نشستیں زیادہ ہو سکتی ہیں تو وہ صرف پی پی پی کی ہی ہو سکتی ہیں لہٰذا کیوں وہ استعفیٰ دے کر اس نادر موقع کو ضائع کریں۔محمد علی درانی کا پیر آف پگاڑا کی جانب سے پیغام لے کر شہباز شریف سے جیل میں اچانک ملاقات کرنا بے معنی نہیں تھا سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدام پیر صاحب نے ازخود اٹھایا ہے یا پھر مقتدر حلقوںکی طرف سے ان کو ایسے کرنے کا اشارہ تھا کیونکہ ملک کے موجودہ حالات خلفشار کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں جو ہمارے دشمن کی طرف سے ہمارے بارڈر کو مسلسل ڈسٹرب رکھنے کے پیش نظر تشویشناک بات ہے۔ سیاسی لوگ کبھی بھی سخت رویہ اختیار کر کے پوائنٹ آف نو ریٹرن تک کبھی نہیں جاتے کہ جہاں سے پھر واپسی کے تمام رستے بند ہو جائیں آج صورت حال کچھ اسی قسم کی بن رہی ہے ۔