کورونا وبا نے سال 2020ءکے دوران دیگر کھیلوں کی طرح کرکٹ کو بھی متاثر کیا جس کی کئی ٹیموں بشمول پاکستان کو بھاری قیمت چکانی پڑی ہے مارچ کے مہینے میں کورونا کی وجہ سے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان سیریز کی منسوخی کے ساتھ ہی کرکٹ کے تمام تر مقابلے اور سیریز منسوخ کردی گئیں اور یوں کھیل کے میدان ویران ہوتے چلے گئے۔ قریب چار ماہ کے طویل وقفے کے بعد کرکٹ کے گھر برطانیہ سے ہی ایک مرتبہ کھیلوں کے میدان آباد کرنے کا فیصلہ ہوا اور ویسٹ انڈین ٹیم نے دورے کی حامی بھر لی۔ دورے کے لئے خصوصی قواعد (SOPs) مرتب کرتے ہوئے بائیو سیکیور ببل کا خاص انتظام کیا گیا تاکہ وائرس کے پھیلاو¿ کو روکا جا سکے اور کھلاڑیوں سمیت کھیل سے منسلک تمام افراد کی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔ میچز کا انعقاد بند دروازوں کے ساتھ کیا گیا اور شائقین کو سٹیڈیم میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یورپ میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہونے کے باوجود برطانیہ نے بہترین انتظامات کے ساتھ وائرس کے خطرے کو مات دیتے ہوئے مذکورہ مقابلوں کا انعقاد یقینی بنایا۔ بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کی سرگرمیاں بحال ہونے کے بعد التوا کا شکار دنیا کی سب سے بڑی لیگ انڈین پریمیئر لیگ کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا لیکن بھارت میں تباہ کن صورتحال کی وجہ سے ایونٹ کا انعقاد متحدہ عرب امارات میں ہوا جس میں ممبئی انڈینز نے چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی طرح کیریبیئن پریمیئر لیگ اور لنکا پریمیئر لیگ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ منعقد ہوئیں تاہم کرکٹ کے کھیل میں اصل کامیابی اس وقت حاصل ہوئی جب بھارت اور آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان سیریز کے ذریعے شائقین کی محدود تعداد کی بھی اسٹیڈیم میں واپسی ہوئی۔سال 2020ءکئی لحاظ سے پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے یادگار رہا۔ کورونا وائرس کے مہلک اثرات کے ساتھ قومی ٹیم کی ملی جلی اور اتار چڑھاو¿ سے بھرپور کارکردگی کے باوجود اس سال کو پاکستان کرکٹ کےلئے کامیاب قرار دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ گزشتہ سال کے آخر میں سری لنکا کی کامیابی سے میزبانی کے ساتھ قومی ٹیم نے سال کا آغاز بنگلہ دیش کی ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی میچوں میں میزبانی سے کیا اور ان دونوں سیریز میں پاکستان کی فتح سے بڑھ کر میچز کے پُرامن انداز میں اِنعقاد سے اس پر ایک مرتبہ پھر مہر ثبت ہوگئی کہ پاکستان کھیلوں کےلئے محفوظ ملک ہے۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں دو صفر سے شکست دی جس کے بعد راولپنڈی میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں بھی اننگز اور چوالیس رنز سے کامیابی حاصل کی جہاں اس میچ کی خاص بات نوجوان نسیم شاہ کی ریکارڈ ساز ہیٹ ٹرک تھی۔ بنگلہ دیش کو دو میچوں کی اس سیریز کا اگلا میچ اپریل میں کراچی میں کھیلنا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اسے منسوخ کردیا گیا۔ اس سیریز کے فوراً بعد ملک کے تین شہروں میں پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کا انعقاد کیا گیا اور ایک مرتبہ پھر تمام میچز پ±رامن اور بہترین انتظامات کے ساتھ منعقد کئے گئے۔ دلچسپ مقابلوں سے مزین ٹورنامنٹ راو¿نڈ میچز کے بعد اختتام کی جانب گامزن تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پلے آف میچز سے قبل ہی لیگ کو غیرمعینہ مدت تک کےلئے ملتوی کردیا گیا۔ لیگ کے نئے چیمپیئن کے لئے شائقین کو تقریباً آٹھ ماہ کا انتظار کرنا پڑا اور طویل انتظار کے بعد دوبارہ سے ملک میں کرکٹ کی رونقیں بحال ہوئیں اور کراچی کنگز نے پہلی مرتبہ چیمپیئن کا تاج سر پر سجا لیا۔کورونا وائرس کی وبا کے بعد پاکستانی ٹیم کا پہلا دورہ برطانیہ کا تھا اور یہ ویسٹ انڈیز کے بعد دوسری ٹیم تھی جو کوئی بین الاقوامی سیریز کھیلنے جا رہی تھی۔ پاکستان کو مانچسٹر میں انگلینڈ کے خلاف کھیلے گئے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں فتح کا نادر موقع اس وقت ملا جب دو سو ستتر رنز کے ہدف کے تعاقب میں ایک سو سترہ رنز پر پانچ انگلش کھلاڑی پویلین لوٹ گئے تھے۔ اس موقع پر کپتان اظہر کا دفاعی انداز قیادت اور جوز بٹلر اور کرس ووکس کی عمدہ بیٹنگ نے پاکستان سے یقینی فتح چھین لی اظہر علی کو قیادت سے ہٹانے کے بعد بورڈ نے بابر اعظم کو تینوں فارمیٹ میں کپتان بنانے کا اعلان کردیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ میں پہلی مرتبہ ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر دونوں عہدے حاصل کرنے والے مصباح الحق نے سلیکٹر کا منصب چھوڑنے کا اعلان کردیا اور بعدازاں یہ قرعہ فعال سابق کرکٹر محمد وسیم کے نام نکلا جنہیں سلیکشن کمیٹی کا نیا سربراہ بنانے کا اعلان اٹھارہ دسمبر کو کیا گیا۔ برطانیہ سے واپسی پر پاکستان نے زمبابوے کی اپنی سرزمین پر میزبانی کر کے ایک مرتبہ پھر دنیائے کرکٹ کو مثبت پیغام دیا اور ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی دونوں سیریز میں کامیابی حاصل کی۔ یہ سیریز شائقین کی توقعات کے برعکس ثابت نہ ہوئی اور سیریز کے تیسرے ون ڈے میچ میں زمبابوے نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقابلہ ناصرف برابر کیا بلکہ پاکستان کو سپر اوور میں مات دی اور پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں تین صفر اور ون ڈے سیریز میں ایک دو سے کامیابی حاصل کی۔ اُمید ہے کہ جن کرکٹ کی ٹیموں نے 2021ءمیں پاکستان آنے کی حامی بھر رکھی ہے وہ اپنے قول پر عمل کریں گی اِس سلسلے میں کرکٹ کھلاڑی و شائقین جنوبی افریقہ ٹیم کی راہ دیکھ رہے ہیں۔