محو حیرت ہو ں۔۔

آج تو ریمورٹ ہاتھ میں ہے پھر انگلیوں تلے ہزاروں اگر نہیں تو سینکڑوں چینل دھڑک رہے ہیں جن میں سے تو بعض کو بے دھڑک دیکھا جا سکتاہے وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ خبروںکےلئے بس ایک ہی وقت مقرر تھارات نو بجے خبرنامہ دیکھنا ہے پھر اس کے بعد اگر تفصیل سے خبریں دیکھنا ہوں تو دوسرے دن رات نو بجے کا انتظار کرناہوتا تھا خبروں کو تو ٹی وی کے اس ایک ہی چینل پر کوئی اہمیت ہی حاصل نہ تھی عوام الناس کا زیادہ تر واسطہ تفریح کے پروگراموں کے ساتھ تھا ٹاک شو کاتو تصور ہی نہ تھاایک ڈرامہ دوبارہ اور سہہ بارہ لگ رہاہے اگر پاکستانی فلم ہے تو مہینے کے بعد لگتی تھی پاکستانی فلموں کے گانوں کے لئے ہفتہ میں آدھ گھنٹے کا ایک پروگرام خاص کر دیاگیاتھا سب ایک دوسرے سے کہتے کہ بات سنو آج ہرتانِ دیپک لگے گا اس گانوں کے پروگرام کا نام یہی تھا فلموں کا اور خبروں کا پھر بریکنگ نیوزکاتو دور دور تک آئیڈیا نہ تھا کہ آخر ان کا بھی کوئی اپنا مقام ہے اور یہ بھی کوئی چیز ہیں پھر ایک کے بعد دوسرا چینل آگیا جس پر علامہ اقبال یونیورسٹی کے لیکچر دکھلائے جاتے تھے ہماری قوم کو اس وقت کچھ پتا ہی نہ تھاکہ دنیا میں کیا ہو رہاہے خبروں کے شوقین اگر بہت ہوا تو ریڈیو پر عالمی خبریں سن لیتے تھے‘ کیا زمانہ تھا خوب لا عملی تھی دوسرے شہرو ںمیں تو چھوڑ اپنے شہر میں اور اپنے محلے کے اس پار کیا ہورہاکسی کو کب معلوم تھاٹی وی پر پاکستانی فلم لگتی تو پھراگلی فلم کےلئے تیس دن انتظارکرنا پڑتا ایک محلے یا خاندان میں ایک آدھ گھر ہی ہوتا تھا جس میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا۔ جب فلم کا دن آتا تو سارے محلے والے اس ایک گھر میں یا خاندان کے چیدہ او رقریبی لوگ بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی والے گھر میں جا دھمکتے پھرجب رنگین ٹی وی نے کالے ٹی وی کی جگہ سنبھالی تو سمجھو ایک انقلاب آگیا تین چینل اور رنگین ٹی وی کیا اور چاہئے دھڑا دھڑ ٹی وی فروخت ہونے لگے اور ان تین سرکاری چینلوں پر خبریں دیکھی جانے لگیں اب تو ڈراموں میں بھی لطف آگیاتھا ڈرامے زیادہ ہوگئے عوام کو زیادہ تفریح ہاتھ آ گئی مگر اب کیا حال ہے نوجوان نسل کو اس موجودہ صورتِ حال کااچھی طرح پتا ہے اس نئی پود نے وہ بلیک اینڈ وائٹ کا زمانہ نہیںدیکھامگر جانے اس کے بعد کون سا زمانہ آنے والا ہے آج ہم بلیک اینڈ وائٹ کے زمانے کو ہنس کر یاد کرتے ہیں مگر آنے والے بہت جلد کے دنو ںمیں ہم موجود لوگ اس موجودہ دور ہی میں جو دو ایک سالوں پیچھے کا ہوگا مگر جیسے دہائیوں پہلے گذرا ہو یاد کر کے اپنے ہی اوپر ہنسیں گے آج کیا ہے جو ٹی وی کی دھڑ کتی ہوئی سکرین پرموجود نہیں ہر آدمی خواہ جس ذہن کا ہے ذہنیت کے مطابق چینل بدل کر اس سے بھرپور سرورحاصل کرتا ہے پہلے تو رات بارہ بجے ٹی وی بند ہو جاتا تھا پھر دوسرے دن سہہ پہر کو چار بجے ٹی وی کی نشریات شروع ہو تی تھیں اس وقت جب ٹی وی چوبیس گھنٹے کےلئے شروع ہو گیا تو بہت خوشیاں منائی گئیں نشریات تو زیادہ نہ ہوئیں مگر ایک ہی ڈرامے کے بار بار نشر ہونے کے اوقات بدلے توبدلتے چلے گئے زمانہ بدلتا گیا آج کاحال سب کو معلوم ہے خبریں تو کیا ٹاک شوز میں سیاسی اکھاڑے سجتے ہیں بس معلومات کے خزانے ہیں جو آسمان کے سیٹلائیٹ سے برس رہے ہیں کوئی معلوماتی چینل دیکھ رہا ہے کوئی اپنے اپنے اپسندیدہ کھیلوںکا چینل لگاکر دیکھ رہاہے وہ رنگارنگی ہے کہ سٹیج شوز گانے کے پروگرام پھر ایک ہی وقت میں سینکڑوں چینلوں پر سینکڑوں فلمیں لگی ہیں جو ہماری اپنی بھی ہیں اور پرائی بھی ہیں جس وقت ہمسایہ ملک کی فلموں کے ہمارے ہاں دیکھے جانے کا رواج نہ تھا اس وقت ہم کراچی میں تھے وہاں خاص اینٹینا لگا کر عمان کے ملک کی نشریات کھینچی جاتی تھیں وہاں رنگین انڈین فلمو ںنے ایک دھوم مچا رکھی تھی یا پھر لاہور میں ہمسایہ ملک کی نشریات پرندوں کی طرح سرحد عبور کر کے آتی تھیں اب تو سب کچھ کھلے عام ہر ملک سے خواہ خبریں ہیں یا پسندیدہ پروگرام ہیں پہنچ رہا ہے یہ ساری نشریات صرف ہمارے ہاتھ میں تھامے ہوئے ریمورٹ میں آکر ایک نقطے میں جمع ہوگئیں ہیں اقبال کا شعر یاد آتا ہے سو سال پہلے والا ” آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں ٬محوِ حیرت ہو ں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی“اب تو خیر سو سال بعد نہیں چند سالوں بعد دیکھیں اور خدا لمبی عمریں عطا کرے کہ اس ٹی وی سکرین کو بھی لوگ چھوڑ کر یو ٹیوب چینل پر آ جائیں گے اور سب لوگ ٹی وی کو اٹھاکر سٹور میں رکھ دیں گے بس یو ٹیوب پر خبریں دیکھیں بلکہ جو آپ کی مرضی وہ دیکھیں۔