گاڑیوں میںمیوزک

پورا شہر گونج رہا تھا وہ دھمکار تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی میں نے سوچا سڑک پر اپنی رفتار کو بڑھا دوں تاکہ اس آواز کی پہنچ سے دور چلا جا¶ں مگر ایسا ممکن نہ تھا کیونکہ وہاں رش تھا پھر خیال آیاکہ اپنی سپیڈ کم کردوں تاکہ پیچھے آنے والا یہ رکشہ مجھ سے آگے گزر جائے مگر اس بھیڑبھاڑ میں ایسا کرنا بھی آسان نہ تھاحالانکہ قریب سے گزرنے والے لوگوں نے بے ہنگم طریقے سے رکشہ ڈرائیور کو پکارا کہا ٹیپ کی آواز تو آہستہ کرو مگر وہ کسی کی کیو ں سنتا پھر سن بھی کیسے سکتا کیونکہ اس شورشرابے کی موسیقی میں اس کو اپنے منہ سے نکلی آواز نہ آئے تو دوسرے کی آواز ان کے کانوں کے پردوں پرکیسے چوٹ کر سکتی تھی یہ کوئی شوقیہ ڈرائیور لگتا تھاکیونکہ سڑک کنارے کھڑی کوئی سواری آواز دے تو اس کو کیسے سنائی دے میوزک تو قریب قریب ہر گاڑی میں لگا ہوتا ہے مگر وہ چار پہیوں والی ہوتی ہے وہاں اگر موسیقی کی تان چھڑی ہو تو گاڑی بھی کنٹرول میں ہوتی ہے حالانکہ گاڑیو ں کے جتنے بھی ٹائر ہوں میوزک سننا درست نہیںمنی بسوں میں تیز آواز کے ساتھ گانے لگے ہوتے تھے اب اس لئے کم ہیں کہ پولیس نے ان کو چالان کر نا شروع کر دیا تھامگر سڑک پر ان کو پولیس اہلکارنظر آتا تو وہ کانوں کو پھاڑنے والی موسیقی پہلے ہی بند کر دیتے ڈرائیور حضرات نے میوزک کے آن آف کابٹن خفیہ رکھا ہوتا ہے بلکہ صاحب بٹن تو کیا بس ایک تار ان کے سر پر لٹکی ہوتی جس کو یہ حسبِ موقع اٹھا کر اوپر لوہے کی سلاخ سے جوڑ دیتے اور پھر گانے شروع ہو جاتے یہ تو خا ل خال سواریاں ہیںجو ڈرائیور کو ڈرا دھمکا کر غصے کے عالم میں موسیقی کے نام پر اس یگانہ شور سے منع کر تے ہیںشہر کی اس فضا میں جہاں ہجوم ِ بے کراں کا سامنا ہو موسیقی سے لطف لے کر اس نشے کے عالم میںکسی راہگیر کو کچل دینا کاہے کی شرافت ہے پھر یہی لوگ گلہ کرتے ہیں اور اپنے سر کے اوپر بس کے ایک کونے میں لکھ دیتے ہیں ”ڈرائیور کی زندگی بھی عجب کھیل ہے موت سے بچ گیا تو سنٹرل جیل ہے “جس رکشہ کا میں نے ذکر کیا اگر اس کے باہر پورا ماحول دھمک رہاتھا تو رکشے کے اندر کیا حالت ہوگی اگر بالفرض موسیقی سے چھٹکارا نہیں تو موسیقی بس اتنا ہی سنے کہ خود اسے آواز آئے نہ کہ اپنی پسند کے گیت پوری دنیا کو سنانے لگ جائیں باقی لوگوں کا آپ کی پسند کی موسیقی سے کیا کام پھر یہ بھی کہ پسند اپنی اپنی نصیب اپنااپنا والی بات ہے کوئی اردو پشتو سرائیکی ہندکو چترالی ہزارہ والی کشمیری ہر زبان کے نغمہ و ترنم سے لطف لیتا ہے ‘ اب تو حال یہ ہے کہ گاڑی کے اندر ٹی وی سکرین بھی لگی ہے بس گانے سنتے جا¶ اور مت دیکھتے جا¶ آگے کون آگیا کون سا ٹرک ہے کون راہگیر ہے ا س پر توجہ دینے کی کیا ضرورت ہے اگر کوئی غریب کچلا گیا تو کیا ہوا پیسہ تو بہت ہے بس اپنی غلطی تسلیم کرلو اور ہجوم میں سے اسے اٹھا کر خود ہسپتال لے جا¶ علاج کروا¶ اگر اس کے وارث آگئے تو ان کو کچھ دے دلا کر وہاں سے نو دوگیارہ ہو جا¶ لیکن راہ چلتا اگر زندگی سے چلاگیا توکچھ لاکھ کی بات ہے دے دلاکر معذرت کرلویا پھر ہو سکتا ہے کہ وفات پا جانے والے کے ورثاءآپ کو معاف کر دیں حیران ہو ں کہ اس قسم کے لوگوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے مزے سے ہائی وے پر جا رہے ہیں اور گانوں کی بہار ہے اس حد تک کہ سکوٹر سوار لوگوں نے جہاں سکوٹر میں سی این جی لگا رکھی ہے وہاںٹیپ بھی لگا رکھا ہے سی این جی کا سلینڈر سامنے ان کے پا¶ں کے پا س نظر آئے گا یا تو سائیڈ پر لگا رکھا ہوگا پھراس پر سکوٹر کے سبزی اور سودا سلف والے ڈبے میں ٹیپ ریکارڈر بھی سجا رکھا ہوتا ہے بلکہ چھپا رکھا ہوتا ہے کوئی کچھ کہے کسی کی کیا مجال ہے یہ جاتے رہیں گے گانے سنتے رہیں گے اب تو بعض موٹر سائیکل سواروں نے بھی یہی روش اختیار کر رکھی ہے پشاور ٹو لاہور کی گاڑیوں میں ٹی وی لگے ہیں فلم شروع ہوتی تو سواریاں پکارتی ہیں گانے لگا ¶ پہلے تو اگر ٹی وی سکرین ہوتی تھی تو ڈرائیور سے تھوڑا پیچھے ہوتی تاکہ باقی کے گاڑیوں میں سوار مسافر ضرور دیکھیں مگر ڈرائیور نہ دیکھے کیونکہ اس کی دلچسپی اگر فلم کی طرف ہوگئی گاڑی کھائی میں گئی یا پانی کے جہاز ٹائی ٹینک کی طرح کسی چٹان سے ٹکرا جائے موسیقی کو گھر کے کسی روم تک محدو د رکھا جائے تو کیا اچھا ہو۔