نایاب ہستیاں: شمس الرحمن فاروقی

عیسوی تقویم میں سال کا 360واں دن بھاری رہا۔ پچیس دسمبر کو وفات پانے والوںمیں شمس الرحمن فاروقی کا اسم گرامی شامل ہوا ہے(انا للہ و انا الیہ راجعون)۔ آپ کی عمر پچاسی برس تھی اور شمار اردو کے انتہائی گرانقدر محققین‘ نقادوں اور ایسی بلندپایہ علمی ادبی شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو زبان کو نئی بلندیوں سے روشناس کرایا اور شاید ہی اُن جیسا تحقیقی و تنقیدی کام آئندہ کئی صدیوں تک ممکن ہو پائے جس میں چند شامل کتابیں (اثبات و نفی‘ اردو غزل کے اہم موڑ‘ اردو کا ابتدائی زمانہ ادبی تہذیب و تاریخ کے پہلو‘ افسانے کی حمایت میں‘انداز گفتگو کیاہے‘ تعبیر کی شرح‘ تفہیم غالب‘ شعر شور انگیز (چارجلدیں)‘ شعر غیر شعر اور نثر‘ خورشید کا سامان سفر‘ صورت و معنی سخن‘ غالب پر چار تحریریں‘ گنج سوختہ‘ لغات روزمرہ‘ ہمارے لئے منٹو صاحب‘ لفظ ومعنی‘ نئے نام‘ نغمات حریت‘ عروض آہنگ اور بیان) اردو کا اثاثہ قرار دی جا سکتی ہیں۔ اِن کتب کے علاوہ بھی اُنہوں نے افسانے ‘ ناول اُور شاعری (آسمان محراب) تحریر کیں جبکہ علامہ اقبالؒ کی شاعری میں استعارتی نظام اُن کا ایسا تحقیقی کام ہے جس نے اقبال شناسی کو نئے زاویوں سے روشناس کرایا اور علامہ اقبالؒ کے کلام کو سمجھنے اور اُس میں مزید غور کرنے کو دلچسپ و آسان بنایا‘ جو اُن سے قبل بھی اگرچہ ذکر ہوا لیکن اِس قدر گہرائی اور تفصیل سے کبھی بھی ’کلام اقبال‘ کی عرق ریزی نہیں کی گئی۔ پچیس دسمبر دوہزاربیس‘ آلہ آباد (بھارت) میں انتقال کرنے والے شمس الرحمن فاروقی کورونا وبا سے متاثر ہونے کے بعد ایک عرصے سے علیل تھے ۔عالمی انعام یافتہ شمس الرحمن فاروقی نے تنقید نگاری سے ادبی سفر شروع کیا۔ انہوں نے الہ آباد سے ’شب خون‘ نامی ادبی جریدے کا اجرا ءکیا جسے ’جدیدیت کا پیشرو‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس رسالے نے اردو مصنفین کی 2 نسلوں تک رہنمائی کی۔ فاروقی صاحب نے شاعری کی‘ پھر لغت نگاری اور تحقیق کی طرف مائل ہو گئے۔ اس کے بعد افسانے لکھنے کا شوق ہوا تو “شب خون“ میں فرضی ناموں سے یکے بعد دیگرے کئی افسانے لکھے جنہیں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ تین سال قبل انہوں نے ایک ناول لکھا ”سانچہ:کئی چاند تھے سرِ آسماں“ جسے عوام و خواص نے بہت سراہا۔ اس کے علاوہ انہیں عام طور پر اُردو دنیا کے اہم ترین عروضیوں میں سے ایک گردانا جاتا ہے۔ غرض یہ اردو ادب کی تاریخ میں شمس الرحمٰن فاروقی جیسی کثیر پہلو شخصیت کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ انہوں نے قریب چالیس برس تک اردو کے مشہور و معروف ادبی ماہنامہ “شب خون“ کی ادارت کی اور اس کے ذریعہ اردو میں ادب کے متعلق نئے خیالات اور برصغیر اور دوسرے ممالک کے اعلیٰ ادب کی ترویج کی۔ شمس الرحمن فاروقی نے اردو اور انگریزی میں کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ خدائے سخن میر تقی میر کے بارے میں ان کی کتاب ’شعر شور انگیز‘ جوچار جلدوں میں ہے اور کئی مرتبہ چھپ چکی ہے اِس کتاب کو سال 1996ءمیں ”سرسوتی سمان“ ملا جو بھارت کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے تنقید‘ شاعری‘ فکشن‘ لغت نگاری‘ داستان‘ عروض‘ ترجمہ الغرض ادب کے ہر میدان میں تاریخی اہمیت کے کارنامے انجام دیئے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں ملنے والے اعزازات و اکرام میں ”علی گڑھ مسلم یونیورسٹی“ کی اعزازی ڈگری ”ڈی لٹ“ بھی شامل ہے۔ اُن کی صاحبزادی مہر فاروقی جو کہ تاریخ داں و زباں شناس ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’شعبہ انگریزی‘ سے بطور معلمہ (پروفیسر) وابستہ ہیں نے اپنے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@FarooqiMehr) کے ذریعے پچیس دسمبر کے روز (صبح گیارہ بجکر بیس منٹ پر) فاروقی صاحب کے انتقال کی افسوسناک خبر دی تھی جبکہ وہ گزشتہ کئی روز سے اُن کی صحت کے بارے میں ٹوئیٹر پیغامات کے ذریعے فاروقی صاحب کی صحت کے بارے اطلاعات کا تبادلہ کرتی رہیں جیسا کہ ”اُن کی بیماری کے دوران پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اُنہوں نے 23 دسمبر کے روز دوسری مرتبہ چائے طلب کی اور نحیف ہاتھوں سے چائے کا کپ خود پکڑا جس سے اُمید پیدا ہوئی اور دعا گو ہوں کہ وہ صحت یاب ہو رہے ہیں۔“ مہرفاروقی ہی نے اُن کی تدفین مکمل ہونے کی اطلاع بھی دی یوں چھ دہائیوں تک اُردو زبان و ادب پر چمکنے والا سورج غروب ہو گیا لیکن اُن کی روشنی (کرنیں) تادیر دنیائے اردو کو منور رکھیں گی۔ اُن کی ایک غزل سے چند اشعار اقتباس (ہدیہ) ہیں‘ جس میں قائم استعارتی نظام اور توازن لائق توجہ ہے۔ ”ادھر سے دیکھیں تو اپنا مکان لگتا ہے : اک اور زاویئے سے آسمان لگتا ہے .... جو تم ہو پاس تو کہتا ہے مجھ کو چیر کے پھینک : وہ دل جو وقت دعا بے زبان لگتا ہے“