ایک پوچھا جانے والا سوال اور جواب

کیا کبھی پاکستان میں امن کا زمانہ بھی گزرا ہے “ یہ ایک سوال ہمارے بہت ہی تجربہ کار اور تعلیم یافتہ شخص نے سوشل میڈیا پر اپنے دوستوں سے پوچھا ہے ‘ بظاہر یہ زندگی میں پوچھے گئے بہت سے چھوٹے بڑے سوالوں کی طرح ایک سوال ہے لیکن عقل اور سوچ رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس جملے کے سامنے ایک ایسا سوالیہ نشان ہے اور اس میں چھپی ہوئی مایوسی‘ ملکی حالات کے غم اور اداسی اور سب سے بڑھ کر ایک گھمبیر مستقبل چھپا ہوا ہے یہ سوال کم و بیش ہر ذی شعور اور محب وطن کے ذہن میں آتا ہے جب وہ روزانہ اپنی زندگی کے قیمتی گھنٹے دفتروں میں اپنے بزنس میں خرید و فروخت کرتے ہوئے حالات کے تناظر میں گزارتاہے میرے ساتھی کے اس سوال کے جواب میں ہمارے بے شمار ساتھیوں نے اپنی اپنی سوچ اور سمجھ کے حساب سے جواب دیا تھا بہت سے لوگوں نے پاکستان بننے کے بعد کے کئی زمانے لکھ دئیے تھے جب اپنے نوجوانی میں اور جوانی میں امن وآشتی کا زمانہ ان کے خیال میں گزرا ہے زیادہ تر لوگ جن میں70-60 سال کی عمر کے لوگ شامل ہیں فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کے دور حکومت کو یاد کیا ہے ان کے خیال میں60 کی دہائی پاکستان میں سب سے زیادہ امن اور ترقی والی دہائی تھی ‘ میں بھی جانتی ہوں کہ یہ دہائی جب 1969-1970 میں تعلیمی اداروں میں صدر ایوب خان کے دس سالہ اصلاحاتی پروگرام کے سلسلے میں ہفتے منائے گئے تھے اگرچہ اس زمانے نویں دسویں کے طالب علموں کو سیاست حکومتی کارناموں یا حکومتی برائیوں کے بارے میں قطعاً شعور نہ تھا اس وقت کا طالب علم نہایت معصوم ہوتا تھا جس کی زندگی کا محور سکول ‘ کلاس روم ‘ کورس کی کتابیں اور استاد ہوتا تھا اب سوچتی ہوں حکومتی احکامات ہوں گے تو ہماری اساتذہ نے ایوب خان دور کے دس سالہ اصلاحاتی پرگرام پر بے شمار پروجیکٹس طالب علموں سے کروائی تھیںمجھے تو اپنی دھواں دھار تقاریر کے مقابلے یاد ہیں جن میں تعلیمی اصلاحات سرفہرست تھیں اور اب سوچتی ہوں اور یہ بات تاریخ پڑھ کر سچ بھی لگتی ہے کہ صدر ایوب خان نے دس سال میں ہم ترقی کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے ہیں 1965ءمیں ہونے والی جنگ انہی کے دور حکومت میں آئی تھی ‘ میں پرائمری جماعت میں تھی جب سڑکوں پر ایک ہجوم ریڈیو سیٹ کے سامنے کھڑا ہو کر صدر ایوب خان کی روزانہ کی نشر ہونے والی تقریر سنتا تھا جو جنگ کے 17 دن تک ریڈیو پاکستان سے روزانہ لائیو نشر ہونے والی ایسی تقریر کی جس نے پاکستانی قوم کو ایک جان کر دیا تھا دشمن کے اس اچانک حملے سے پاکستان فوج نے انتہائی بہادری سے یہ جنگ 17 دن تک بے جگری سے لڑی اور فتح حاصل کی اس کا کریڈٹ فوج ایوب خان کی لہو گرمانے والی تقریرویں اور قیادت جوش اور ولولے سے بھری ہوئی پاکستانی قوم کو جاتا ہے ریڈیو پاکستان کو کریڈٹ نہ دینا بڑی زیادتی ہو گی کیونکہ ریڈیو پاکستان نے اس 17 دن میں جو قومی نغمے تخلیق کئے اور ملکہ ترنم نور جہاں‘ مہدی حسن ‘ مسعود رانا ‘ شوکت علی اور بے شمار بڑے ناموں نے ان ملی نغموں کو گایا ‘ عظیم شاعروں نے ان کو گھنٹوں کے نوٹس پر لکھا خصوصاً حفیظ جالندھری جو ریڈیو پاکستان لاہور میں ان دنوں رات دن گزارتھے تھے اگرچہ ساری قوم ریڈیو پاکستان کا یہ عظیم احسان کب کا بھول چکی ہے لیکن جب بھی ا س جنگ کی تاریخ کوئی لکھے گا اس میں ریڈیو پاکستان کے اس عظیم ورثے کا ذکر کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا‘ صدر ایوب خان کے دور حکومت میں چھ ڈیم بنے جو آج بھی 6 ہی ہیں سارا پاکستان پچھلے70-60 سالوں سے انہی ڈیموں سے فائدہ اٹھا رہا ہے آنے والے زمانوں میں کہیں ڈیم کا اضافہ نہیں ہوا اسلام آباد شہر بنانا اس وقت بہت بڑا منصوبہ تھا بعد میں کوئی رہنما بھی نیا شہر نہ بسا سکا اور اسلام آباد ایک ایسا شہر اور ایسا دارالخلافہ کہ جس کی خوبصورتی اور ترقی کی باتیں کتابوں میں ملتی ہیں اور جہاں گھر بنا کر رہنا ہر پاکستانی کی خواہش ہو سکتی ہے ہماری قوم میں بھول جانے کی بہت بڑی قباحت ہے ہم جس طرح بری باتوں کو بھول کر پانچ سال بعد اسی برائی کو ووٹ دینے کےلئے خوشی خوشی راضی ہو جاتے ہیں اور اس طرح خوبیوں کو بھی بھول بھال کر ذکر تک بھی نہیں کرتے ‘ آج جب کورونا کی اس وباءمیں کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو روزانہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے دیکھتی اورسنتی ہوں تو صدر ایوب خان یاد آ جاتے ہیں قوم کے برے ‘ مشکل اور مصیبت کے وقت لیڈر اور رہنما کا سامنے آ کر اپنی قوم سے مخاطب ہونا کتنا بڑا قدم ہوتا ہے صدرایوب خان کی دو ہی کتابیں میری نظر سے گزری ہیں جس رزق سے آتی ہو پرواز میںکوتاہی اور صدر ایوب خان کی ڈائری‘ جو گوہر ایوب خان نے کچھ عرصہ قبل شائع کروائی تھی ان میں ہی میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ ایوب خان کے زوال کے وقت جب چینی4 آنے مہنگی ہوئی تھی تو ایک نعرہ بہت لگتا تھا چینی چور کا ‘یہ ایک ایسا اس زمانے کا سوشل پریشر تھا کہ ظرف والے شخص نے استعفیٰ دینا مناسب سمجھا اور گھر چلا گیا میرا مقصد حمایت کرنا نہیں ‘ بس ایک سوال جو سوشل میڈیا پر مانگا گیا اس کے جواب میں خیالات کا ایک تانتا بندھ گیا قائداعظم محمد علی جناح ان کے رفقائے کار وہ عوام جنہوں نے پاکستان بنانے کےلئے ایسی بے مثال قربانیاں دیں ہندوستان میں اپنے بھرے پرے گھر چھوڑ کر مہاجر کیمپ میں آن بسے زرعی زمینیں باغات ‘ حویلیاں‘ ملازمتیں سب پاکستان کے نام پر وار دیں‘ لوگ آج کل کی ان سب خرافات سے تنگ آ چکے ہیں نئی نسل آگے بڑھناچاہتی ہے ہم سے پیچھے رہ جانے والی دنیا کی اقوام ہم سے بہت زیادہ آ گئے جا چکی ہیں اور ان کے مقابلے میں ہم بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں اگر ہم اپنی ترقی کی رفتار کو تیز نہیں کریں گے تو بہت خسارے میں چلے جائیں گے اسی طرح جب ماضی میں تین براعظموں کا مالک اور مسلمانوں کی سپر پاور عثمانیہ خلافت ترقی کی دوڑ میں مغرب سے پیچھے رہ گئی تھی اور پھر جنگ عظیم دوئم میں بمشکل ترکی کو ہی بچا سکتی تھی ان کے تین براعظم پھرخو اب اور خیال ہو ئے تھے میں نے کتنے ہی منٹ سوچا اور اپنے ساتھی کے سوال کے جواب میں لکھا ۔پلیز اداس نہ ہو انشاءاللہ پاکستان ایک دن بہت دور آگے کی طرف جائے گا ۔ اسلام میں مایوسی گناہ ہے اچھے دن اور امن کا زمانہ ضرور آئے گا۔