اپو زیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے قیام کے فورا ًبعد جس طمطراق سے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا اور تحریک کے آغاز پر اس اتحاد میں شامل جماعتیں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور موجودہ حکومت کی رخصتی کے حوالے سے جس عہدو پیمان کا اظہار کر رہی تھیں اس سے یہ تاثر ابھر رہا تھا کہ شاید مریم نواز صاحبہ کے بقول آر یا پار کا مو قع بس آیا ہی چاہتا ہے۔ لیکن اب جوں جوں اپوزیشن جماعتوں کی یہ تحریک نسبتا ًکٹھن اور سخت مراحل میں داخل ہوتی جا رہی ہے توں توں اس کی کچھ کمزوریاں بھی سامنے آنے لگی ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے بارے میں یہ تاثر حکومت یاکسی ریاستی دباﺅ یا رکاوٹ کی بجائے خود اپوزیشن جماعتوں کے درمیان موجوداعتماد کے فقدان نیز پی ڈی ایم کی بعض بڑی جماعتوں کی جانب سے جو بیانات اور سگنلز موصول ہو رہے ہیں وہ بذات خود اتنے حیران کن ہیں کہ ان پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ پی ڈی ایم کی تحریک کے آغاز پر ہی اسکے متعلق دو واضح آراءسامنے آئی تھیں‘ ان میں ایک رائے جو پی ڈی ایم میں شامل دو بڑی جماعتوں کے ناقدین پر مشتمل تھی اسمیں بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے محض الزام تراشی کی حد تک اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے تانے بانے میاں نواز شریف بلکہ پوری شریف فیملی اور پیپلز پارٹی کی قیادت بشمول سابقہ صدر آصف علی زرداری، خورشید شاہ،سابق وزارءاعظم سید یوسف رضا گیلانی ،راجہ پرویز اشرف ، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، سابق صوبائی وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن، آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور وغیرہ کے خلاف بنائے کیسزسے چھوٹ کےلئے کسی ممکنہ ڈھیل یا ڈیل سے جوڑے جاتے رہے ہیں جبکہ ملک میں ایک رجائیت پسند طبقہ ایسا بھی ہے جو ہمیشہ کی طرح اپوزیشن کی شروع کردہ تحریک کو حقیقی جمہوریت کی بحالی، سیاست میں مداخلت ہمیشہ کےلئے ختم کرنے اور موجودہ حکومت کی رخصتی کو دیوار کا لکھا قرار دے کر ایک شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کے نتیجے میں صاف وشفاف نتائج کی حامل پارلیمان اور اس پارلیمان سے مثالی حکومت کو پاکستان میں بھی ابھر تا ہوا دیکھ رہا تھا جبکہ ان دو انتہاﺅں کے درمیان ایک طبقہ ایسا بھی موجود تھا یا اب بھی ہے بلکہ اب تو اس طبقے کی رائے پی ڈی ایم کی طرز سیاست اور ہر گزرتے دن کےساتھ مختلف ایشوز پر اس کی صفوں میں پیدا ہونے والا اختلاف ہر گزرتے دن کےساتھ نقطہ نظر کا یہ اختلاف رائے اختلاف میں تبدیل ہوکراب ایک دوسرے کی مخالفت پر منتج ہورہا ہے‘ اختلاف رائے کی یہ تقسیم ویسے تو کئی معاملات میں پہلے روز سے موجود تھی لیکن اسمبلیوں سے مستعفی ہونے، لانگ مارچ اور سینیٹ کے انتخابات پر پیپلز پارٹی کے جانب سے پی ڈی ایم کے بیانیے کے برعکس جس مفاہمت کے اشارے دیئے جارہے ہیں نیز پیپلز پارٹی اگلے چند دنوں میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں جس دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذکرنا مشکل نہیں ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ملکی سیاست میں کیا ہونے جا رہا ہے‘دلچسپ امر یہ ہے کہ ملک کے اکثر مبصرین پیپلز پارٹی خاص کر زرداری صاحب کے مفاہمانہ اپروچ کو بنیاد بنا کر یہ تجزیئے کرتے ہوئے بھی پائے گئے تھے کہ پیپلز پارٹی چونکہ اندرون خانہ اسٹیبلشمنٹ سے ملی ہوئی ہے اسلئے گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے یہ تاثر عام تھا کہ اسمیں پیپلز پارٹی نہ صرف سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ابھرے گی بلکہ وہ آزاد ممبران اور شاید ضرورت پڑنے پر مسلم لیگ (ن) اور جمعیت (ف) کے ساتھ مشترکہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی ہوگی لیکن اسکے ساتھ یہاں جو ہاتھ کیا گیا اسکے بعد بلاول بھٹو نے ان نتائج پر جس رد عمل اور احتجاج کا اعلان کیا تھا وہ اعلان نہ جانے کن وعدوں وعیدوں کے نیچے دب کر رہ گیا ہے اس حوالے سے رہی سہی کسر شہباز شریف کے ساتھ فنکشنل لیگ کے سیکرٹری جنرل جو ماضی میں جنرل پرویزمشرف کابینہ کا حصہ ہونے کے ناتے اسٹبلشمنٹ کے کافی قریب سمجھے جاتے ہیں کی کوٹ لکھپت جیل میں ہونے والی دو گھنٹے کی طویل ملاقات اور اس ملاقات کے بعد پاکستان اور لندن کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی کی اطلاعات نیز شاہد خاقان عباسی کے نام کا ای سی ایل سے اخراج وہ کڑیاں ہیں جنکے جڑنے سے جو نقشہ ابھر کر سامنے آرہا ہے۔