جب اتوار کا دن طلوع ہوا ‘مگر میں نے سورج کے طلوع ہونے کا نہیں کہا ‘کیونکہ چھٹی کے دن تو سورج طلوع نہیں ہوا ‘ سورج سارا دن بادلوں کی موٹے پردے کے پیچھے ہم شہر والوں کی محبت سے بیگانہ رہا ‘ اس دن جب پو پوٹھی کچھ روشنی سی نمودار ہوئی تو روشن دان کے شیشے کے باہر قریب کے باغ کے درختوں کو جھولتے دیکھا ‘ پھرپتوں کے گرنے کا منظر بھی ایک خوفناک فضا تھی‘ ہوا بھی ایسی کہ درختوں پر سے نہ صرف پتا پتا گرا جاتا بلکہ شہر پشاو رکے باسی تو بستروں میں دبک کر اس ایک چھٹی کو زبردستی گزار دینے کے در پے تھے‘ اس لئے کہ شاید اگلے دن سہی سورج نکل آئے‘ مگر ناخوشگواری او رموسم کی یہ ناہمواری کسی ابتری کا پتا دینے لگی تھی‘خزاں کے بہار تھی ‘زرد اور نارنجی پھول جو اس خزاں کی ریزہ کاری کے پنجے سے آزاد ہوتے ہیں وہ تو نظر میں آتے ‘مگر پتے گراتے درختوں کو اپنی شاخوں سے تنگ آکر جھنجھلاتے ہوئے دیکھنا بجائے خود ایک نظارہ تھا‘اس شاعرِ جواں مرگ کی یاد آئی‘ جو انگریزی میں کیا خوب رومانوی شاعری کر گیا ‘صرف25 سال جیا اور شیکسپیئر کے بعد ادب میں اس کے نام کا دھوم دھڑکا ہے ‘وہ جمال دوست تھا اس لئے اس خزاں کے موسم سے بھی لطف کشیدکرتا تھا‘واقعی لمحہ بھر کی خوبصورتی عمر بھر کی راحت ہے ‘ہمارے شہری جو اس ابرو باراں اور طوفانی ہوا¶ں کے میں یہی خوبصورتی تلاش کرنے سوات کی برف باری کو انجوائے کررہے ہیں‘مگر جہاں تک ہم ہیںبقول انشاءاللہ خان انشا ” نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی‘ تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں “‘خزاں تو کیا ہم تو کبھی موڈ نہ ہو تو بہار کی ہوا کے مخالف بھی چلنے لگتے ہیں‘ ایک درجہ حرارت میں یہ حال تو اگرمنفی ایک ہوا تو پھرہماری حالت کیا ہوگی‘ گوڈے گٹوں کے درد کے دن ہیں ‘ہمہ وقت ہاتھوں پہ دستانے چڑھائے رکھو اور گھٹنوں پر ڈاکٹر کے کہنے پر پٹیاں باندھ کر گھومو گولیاں کھا¶ اور درد میں افاقہ نہ ہو الٹا ان دنوں کی ہوائیں جانے کہاں سے آ رہی ہیں پریشان کئے دیتی ہیں ‘کوئی کہتا ہے کہ روس سائبیریا سے آ رہی ہیں کسی کا قول ہے کہ قطب شمالی سے ارسال ہو رہی ہیں ‘ہوتی رہیں ہم کیا کریں کیا کر سکتے ہیں‘اب اگر یہ حال تو جنوری میں کیا حالات ہوںگے ‘ کیونکہ موسمیات کے دھمکانے والوں نے جاڑے چاندنی کو جنوری میں بھی ہولناک قرار دیا ہے ‘دوسری طرف جیسے جیسے سردی اوپرجا رہی کورناکے مریضوں کی مردم شماری میںبھی کراچی کی آبادی کی طرح اضافہ ہورہاہے اور تھوڑی خبریت ہے اور زیادہ کسی کو خبر نہیں ‘تو کیا اس شہر میںبرف گرے گی ‘ کیونکہ برف باری سے پہلے کی جوخاموشی ہوتی ہے وہ بادلوں کے چھاجانے کے وقت اتوار کو تھی‘یہ نہ ہو موسم کی ترتیب میں تو ویسے بھی عالمی لیول پر رد وبدل ہو رہا ہے ‘کہیں پشاور میں برف باری نہ ہو جائے‘طوفان زدہ ہوا¶ں نے تو اس ماحول کا تیا پانچا کر دیا ہے ‘جن تکیوں اور بستروں بھروسہ تھا وہ بھی ہوائیں دینے لگے ہیں ‘ایک لحاف سے گزارا نہیں ہورہا ‘ جب تک کوٹی پہن کر بستر میں گھس جا¶ تو کہیںکچھ گرم ہوجانے کے آثار پیداہوں گے ‘ دو شاموں سے یہ ماحول ہے ‘پھر اتوار کو تو کتوں نے بھی رات گئے بھونکنے کے بجائے سنسان ماحول دیکھ کر سرِ شام ہی الٹی پلٹی آوازیں نکالنا شروع کردیں تھیں‘پرندو ں کےلئے جو سینک چھت پر رکھی ویسے ہی پانی سے لبالب بھری تھی‘ لگتا کسی پنچھی کو آج گرمی نہیں لگی کہ نیچے اتر کر دو گھونٹ پانی پیتا اور ہمیں قدرت کے ہاں سے اعزاز دلوا دیتا ‘ پنکھ پکھیرو اپنے اپنے گھونسلوں میں دبک کر بیٹھے تھے‘اتوا رکو جو بارش ہوئی تو وہ چکڑ اور گھابے گھلے کہ بغیر سوار ی کے گلی کوچوں میں چھتری لے کر بھی پار نکل جانا محال تھا‘ دوسرے دن سورج کی روشنی تو نمودار ہوئی مگر سڑکیں جو سروس روڈ ہیں وہ تو سوکھنے میں بہت دیر لگا دیں گی ‘ ہاں جو مین روڈ ہیں ان کو تو گزرنے والی گاڑیوں نے وہ ہوائیں دیں کہ پانی سے جلتے چراغ اچانک بجھا دیئے‘سرکار کے ایوانِ سفیدسے اشتہار جاری ہوا کہ جو سردی سے متاثر ہوا اگربے گھر ہے تو اس کو پنا ہ دی جائے گی‘ کھانا تین وقت ملے گا‘برف باری کےلئے مری جانے والوں اب تو پشاور میںبھی کہیں پھوار کے قطرے برف کے ریزے ہیں اور ہوا¶ں میں خنکیاں چھپی ہوئی ہیں فضا بھیگی ہوئی ہے ۔