عالمی وبا کا ذہنی دباو¿ اپنی جگہ اُن افراد کو الگ سے متاثر اور پریشان کر رہا ہے جو صحت مند ہیں لیکن گردوپیش میں رونما ہونے والے واقعات اور حالات پر فکرمند اور تنہائی کے ایک نہ ختم ہونے والے دور سے گزر رہے ہیں۔ نفسیاتی امور کے ماہرین اِس صورتحال سے نمٹنے اور ذہنی طور پر ہشاش بشاش و مطمئن رہنے کےلئے چند ایسے اقدامات تجویز کرتے ہیں‘ جن پر عمل کرنے کا عہد کیا جائے تو عالمی وبا کے باعث پریشانی کی دلدل میں پھنسی زندگی آسان ہو سکتی ہے۔ موسم سرما میں ورزش کے لئے گھر سے باہر قدم نکالنا محال ہوجاتا ہے بالخصوص پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کےلئے موسمی شدت کے باعث ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہوتا۔ایسی صورتحال کا سامنا کرنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ ’جسم اور دماغ کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘ ورزش کرنے سے خون میں ’اینڈورفن‘ نامی کیمیائی مرکبات کا اخراج ہوتا ہے جس سے درد میں کمی اور راحت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ دماغی صحت کےلئے ورزش انتہائی اہم ہے۔ ورزش نہ کرنے یا کم کرنے کی وجہ سے ذہنی دباو¿ اور مایوسی کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ورزش کرنے سے جسم میں پروٹین یا نامیاتی مرکبات کی افزائش بڑھ جاتی ہے جو کہ دماغی صحت کےلئے اہم ہوتے ہیں۔ ورزش دماغ کی زرخیزی بڑھانے والی کھاد ہے۔ یہ ذہن کے بعض حصوں کی افزائش کرتی ہے۔ روزانہ دس منٹ کی ورزش بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے اور ورزش کی تعریف یہ ہے کہ ’ایسا کوئی بھی کام جس کے کرنے سے سانس پھول جائے مثلاً تیز قدموں سے چلنا یا باغبانی کرنا یا پھر سائیکل چلانا وغیرہ یہ سب ورزش کے مو¿ثر انداز ہیں۔ صحت مند مصروفیات (معمولات) کے ذریعے تفکرات سے چھٹکارہ ممکن ہے یعنی اگر آپ کچھ چیزوں کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں اور اُنہیں ذہن سے نکال دیں تو اِس سے بھی ذہنی دباو¿ بڑی حد تک کم ہو سکتا ہے۔ عمومی رویہ یہ ہے کہ لوگ اپنے مسائل کے ساتھ زندہ رہتے ہیں یا مسائل کو زندہ رکھتے ہیں اور یوں منفی خیالات کے سبب کسی ایک مسئلے کو یاد رکھتے ہوئے کرہتے رہتے ہیں جو ایک منفی عمل ہے۔ کسی مسئلہ کے بارے میں متفکر رہنے اور کوئی حل نہ ملنے کی صورت ذہن اُسے بار بار سوچنے لگتا ہے لیکن اگر اُسے فراموش کر دی جائے تو بہتر ہوتا ہے۔ متفکر ہونے کی بجائے مسئلے کا حل ڈھونڈنا چاہئے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ذہنی امراض میں مبتلا مریضوں کی صرف دس میں سے ایک پریشانی حقیقی تھی۔ انسان چونکہ ارتقائی عمل سے گزرتا رہتا ہے اور ایسا ہونا ایک معمول ہے کہ منفی سوچ اور خوف حاوی ہو جائیں جو جسم کے دفاعی نظام کو کمزور کرتے ہیں اور اِن کی سبب جسمانی معذوری یا موت ہو سکتی ہے۔ ذہنی طور پر آسودگی کےلئے ضروری ہے کہ نئے اہداف مقرر کئے جائیں۔ جیسا کہ کوئی نئی زبان یا ہنر سیکھنا یا کھانا پکانے کی ترکیب وغیرہ لیکن بڑے اہداف کی بجائے چھوٹے اہداف مقرر کرنے چاہیئں۔ ذہنی تندرستی کےلئے ”جدت“ سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ نئے کام‘ ہنر اور طریقے سیکھنے سے ذہن تعمیری کاموں میں مصروف رہتا ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے سماجی دوری اختیار کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے سماجی تعلقات مشکل ہو گئے ہیں جبکہ موسم سرما کی وجہ سے معمولات زندگی بھی سکڑ جاتے ہیں جو فی الوقت بڑا مسئلہ ہے اور ذہنی مسائل کا سب بن رہا ہے لہٰذا کورونا سے بچنے کےلئے احتیاطی تدابیر (ایس او پیز) پر عمل درآمد کرتے ہوئے اگر سماجی رابطے بحال کئے جائیں اور اُنہیں بڑھایا جائے تو ذہنی صحت کےلئے بہتر رہے گا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انسان کو اپنے آپ تک محدود رہنے کے لئے تخلیق نہیں کیا گیا ہے بلکہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے‘ اِس کا مزاج بھی سماجی ہے اور یہ سماجی رابطے رکھنے کی وجہ سے خوش رہتا ہے۔ اپنی زندگی کے بارے میں دوسروں سے بات چیت ہمیشہ سے اچھا طریقہ ہو سکتا ہے۔ مسائل پر بار بار سوچتے رہنا بسا اوقات اچھا نہیں ہوتا۔ کسی ایسے شخص سے بات چیت جو اچھا مشورہ دے سکے یا آپ کی مشکل حل کرنے میں مدد دے سکے تو یہ ہمیشہ اچھا رہتا ہے اور اِسے آزمانا چاہئے۔ تنہائی کے شکار لوگ اپنے بارے میں سوچتے یا متفکر رہتے ہیں اور اس سے زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر کورونا وبا کی وجہ سے ملنا ملانا ممکن نہ ہو تو فون کے ذریعے بھی رابطہ ہو سکتا ہے اور آئن لائن ویڈیو بات چیت بھی کی جا سکتی ہے۔ خوش امید لوگوں کی زندگیاں لمبی ہوتی ہیں۔ ان کے آپسی تعلقات اچھے ہوتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام بھی بہتر ہوتا ہے۔ اِس لئے خوش امیدی پیدا کی جائے۔ یہ ایک ایسا ذہنی عنصر ہے جس سے زندگی میں نمایاں فرق پیدا کیا جا سکتا ہے اور اِسے باآسانی حاصل بھی کیا جا سکتاہے لہٰذا غلطیوں سے نہ گھبرائیں۔ تجربات کریں۔ نئی باتیں اور ہنر سیکھیں۔ انسانی تاریخ میں مشکل کا کوئی بھی ایسا دور نہیں آیا جو انسانوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوا ہو۔ اِس لئے انسانی تاریخ پر نظر اور اُمید رکھیںکہ کورونا وبا کا دور چاہے جتنا بھی طویل ہو لیکن یہ دورانیہ بھی گزر جائے گا۔