آج کیا پکائیں

خوشی کا ہنگام تھا۔رات بھر جشن رہا ۔ دیر تک محفلِ ہا¶ ہو جمی رہی۔ ناچ گانے اور تالیاں ۔ڈھول کی دھم دھم پر تھرکتے ہوئے شرکاءتھک ہار کرسو گئے تھے۔ کیونکہ پور پور دکھ رہی تھی انگ انگ تھکان سے چور تھا۔ مگر موقع بھرپور تھا۔ صبح دم مگر صبح کیا دوپہر کے وقت ہونے والی اس صبح میں جو لوگ گھر میں رات رہ گئے تھے جو قریب کے رشتہ ءپیہم میں منسلک تھے۔ اب ایک دستر خوان پر ناشتہ کے لئے گھٹنے سے گھٹنا ملائے گذشتہ رات کی سرخوشی اور گرمجوشی کی باتیں دہرا کر انجوائے کر رہے تھے۔ ہنسی ٹھٹھول کا عالم تھا۔ ہاتھ پہ ہاتھ بجتا دے تالی کی آواز آتی بس خوشیو ں کی چہکار تھی۔ ایک خوبصورت یاد کو یاد کرنابھی اپنی جگہ ایک اور خوبصورت یاد ہوتا ہے ۔ناشتے کے بعد خاتونِ خانہ اپنوں کو اپنا جان کر گویا ہوئیںبتلا¶ آج کیا پکائیں۔ آج اگر کسی کے لب و دہن سے کوئی مہنگا آئیٹم بھی بہ فرمائش ڈھلک جاتا تو اسے پورا ہونا تھا ۔کیونکہ ان قسم کی تقریبات کےلئے جیبوں کو خالی کر دینا شادی بیاہ والے گھر کے سربراہان کے لئے بس ایک بات ہی تو ہوتی ہے ۔پھر یہ تو منگنی کا موقع تھا۔پھریہ تاج محل لڑکے کی انڈرسٹینڈنگ کی بنیاد پر استوار تھا۔مہمانانِ گرامی میں سے ایک صاحب نے کہا ابھی تو ناشتہ کیا ہے ۔پھرخدا لگتی بات ہے کہ انڈوں پراٹھوں کا ناشتہ اپنی جگہ بھاری بھرکم خوراک ہے ۔ جس کے بعد کم از کم چھ گھنٹے کے وقفے کے بعد ہی دوپہر کا کھانا تناول فرمایا جا سکتا ہے ۔خواہ وہ ظہرانہ عشائیہ کیوں نہ بن جائے۔یہ صاحب گذری ہوئی عمر کے تھے ۔ اس ایج میں ہماری طرح جلدی کھانے کا ہضم ہوجانا ایک خواہش ہوتی ہے ۔ایک نوجوان اس دائرہ در دائرہ تشریف فرما اراکینِ محفل میں سر اٹھا کر لپک کر بولا یار نرگسی کوفتے ٹھیک رہیںگے۔کئی آوازیںاور بھی آئیں‘ہاں ہاں نرگسی کوفتے ٹھیک رہیں گے۔ایک خاتون اور بھی جومہمان تھیں مگر جوانی سے گذر ی تھیں۔وہ ولولے وہ جوانو ںکی سی تازہ کاری نہ تھی ۔ بولیں ارے بیٹا کچھ بھی پکا لے۔ہم نے تو انڈے کھانے ہیں اور نہ گوشت قیمے کو ہاتھ لگانا ہے ۔دل کے دو وال بند ہیں ۔ارے ڈاکٹر نے تو ہر چیز سے منع کر رکھا ہے ۔ایک کلینک میں گئی کہنے لگے چاول کھا سکتی ہو ۔ قربان جا¶ں جب مشہور ڈاکٹر کے پاس گئی تو انھوں نے فرمایا اماں اگر کوئی تمہیں یہ بھی کہے کہ یہ چاول ہیں اور ان کے ابال کا پانی نکلا ہوا ہے پھر بھی مت کھانا۔ ہائے بچوں کے ابا تو نہ خود منع ہوتے تھے او رنہ مجھے منع کرتے۔ وہ تو بہت ڈاکٹر وں کے پاس گئے مگر ایک کی بھی نہ مانی۔ ہاں دوائیں خوب کھاتے بے دھڑک کھاتے ۔اگر مجھے منع نہیں کیا تو سمجھو کہ جنت میں خوب آرام سے ہوںگے۔ہائے عین جوانی میں گئے۔ یہ نئی نسل ہے ان کو ڈاکٹری دوا¶ں پر بہت اعتبار ہے ۔میڈیسن کمپنی میں کام کرتے ہیں۔کچھ سمجھ کر پرہیز کا کہتے ہیں ۔ ان کے ابامیرے لئے پھکی او رچورن بہت لاتے تھے ۔یہی وجہ ہے آج میں سب کچھ کھا سکنے کے قابل ہوں ۔ مگر خیر ہے اگر نرگسی کوفتوں کی بات چلی ہے تو کوئی بات نہیں ۔میں تھوڑا شوربہ ہی کھا لوں گی۔ اس وقت وہاں ہم بھی موجود تھے ۔ہم سے بھی سب پوچھا کئے۔ ہم چپ رہے ہم ہنس دیئے اور پھر ہنسے کہ اس عمر کی ایک اور اہلِ خانہ میں سے شاید دادی نانی تھیں پرہیزکے بارے میں بہت خلاف بیانات دیئے۔ کہا بیٹا جو رات اندر ہے وہ باہر نہیں ۔ پھر ان کی ہا ںمیں ہاںملانے کےلئے انکل بھی تو بول پڑے کہ ڈاکٹر نے کچھ روز قبل مجھے انجیو گرافی کروانے کو کہا تھا۔ دل کی شریانوںمیں شاید کوئی رکاوٹ ہے جس کوپتا نہیں کچھ نٹ بولٹ کے ذریعے کھولناتھا۔میں اب کتنی بار ہنسوں ۔یہاں تو ہنس کر ہنسی کا گول گپا بن جانے کے آثا رنمایاں ہو چلے تھے۔میں نے سوچا گھر کی اس سلامتی کونسل کے بھرپور اجلاس میں اپنی رائے دوں ۔مگر زباں روک لی ۔ اپنا پچھلا تجربہ یاد آیا۔ بلکہ تجربات کہہ لوں۔کیونکہ یہ دیکھا ہے سنا نہیں ہے کہ بعض دل کے مریض پروا نہیں کرتے اور بعض شوگرکے مریض میٹھی چیزوں کی بہت پروا کرتے ہیں ۔مجال ہے کہ ان کی موجودگی میںشادی ہال میں اگر بیاہ ہو یا چہلم ہو کوئی فیرنی کو ان سے پہلے ہاتھ تک لگا سکے ۔ سو میں نے اپنے دل کو مخاطب کیا ”خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا“کیونکہ یہاں تو ادب کا تقاضا ہے کہ بڑوں کو سمجھا نہیں سکتے ‘بلا تخفیف عمر ہر بچے بڑے نے اپنا سا خیال پیش کیا۔ مجھ سے پوچھا آپ کیوں نہیںبول رہے ۔مجھے دیر ہورہی تھی ۔میں عرض گزار ہوا کہ آپ اس پر بحث کرتے ہیں کہ آج کیا پکائیں اور میں اس سوچ میں ہوں کہ آج کالم میں کیا لکھوں ۔پتا نہیں انھوں نے کیا پکایا ہوگا ۔میں تو وہاں سے چلا آیاتھا۔