قیام پاکستان کے وقت خیبر پختون خوا جن چھ انتظامی اضلاع پر مشتمل تھا ان میں تین یعنی کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیر اسماعیل خان کاتعلق صوبے کے جنوبی حصے سے تھا جبکہ باقی سارے صوبے سے کل ملاکر تین اضلاع یعنی ہزارہ‘ مردان اور پشاورشامل تھے لیکن اگر دوسری جانب تعمیر و ترقی‘ طبی سہولیات‘ سڑکوں کی تعمیر اور سماجی و معاشی ترقی کا جائزہ لیاجائے تو آزادی کے73 سال بعد صوبے کے جنوبی اضلاع ہر لحاظ سے قرون وسطیٰ کی تصویر پیش کرتے ہیں ۔ واضح رہے کہ پچھلی سات دہائیوںکے دوران ان اضلاع کی تعداد سیاسی بنیادوں پر تین سے بڑھ کر گیارہ تو ہو چکی ہے جن میں نئے شامل ہونے والے چار قبائلی اضلاع کرم‘اورکزئی‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ ہنگو‘ کرک‘ لکی مروت اور ٹانک شامل ہیں جبکہ ان اضلاع کی مجموعی آبادی ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے لیکن اگر سہولیات کے حوالے سے دیکھاجائے تو یہ اضلاع انتہائی زبوں حالی کے شکار نظر آئیںگے۔ حیرت ہے کہ یہ اضلاع شروع دن سے خیبر پختونخوا کا حصہ ہونے کے باوجود ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں صوبے کے ان علاقوں اور اضلاع سے بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں جو قیام پاکستان سے بہت بعد میں خیبر پختون خوا میں شامل ہوئے تھے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان اضلاع کے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہنے اور انکی اس پسماندگی کی وجہ کیا ہے اور ان کی اس احساس محرومی کا ذمہ دار آخر کون ہے۔ در اصل بظاہر تو ان اضلاع کے ساتھ روا ررکھے جانے والے امتیازی سلوک کی ذمہ دار صوبے کی وہ اشرافیہ نظر آتی ہے جو پچھلے 73 سال سے اس صوبے کے سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے لیکن دوسری جانب اس ذمہ داری سے جنوبی اضلاع کے ایک کروڑ عوام بھی خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں جو نہ صرف گروہی اور قبائلی تعصب کا شکار بناکر ایک مرکز اور وحدت سے محروم رکھے گئے ہیں بلکہ انکو تعلیم اور سیاسی شعور سے بھی دور رکھا گیا ہے جبکہ تیسری جانب اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو جنوبی اضلاع کی سیاست پر پچھلی سات دہائیوں کے دوران چند مخصوص سیاسی اور مذہبی گھرانے ہی قابض نظر آتے ہیں جنوبی اضلاع کے حقوق اور وسائل پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ قدرت نے ان اضلاع کوکئی قیمتی معدنیات سے مالا مال کر رکھا ہے جن میں تیل اور گیس سے لیکر کوئلے‘تانبے‘ کرومائٹ ‘ لائم سٹون او رلوہے کے وسیع ذخائر قابل ذکر ہیں ۔اسی طرح یہاں کی لاکھوں ایکٹر وسیع و عریض بنجر زمین کو اگر سیراب کیا جائے تو یہ زمین ہر قسم کی غذائی اجناس اُگانے کی صلاحیت رکھتی ہے جن سے نہ صرف اس خطے کی غذائی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں بلکہ یہ صوبے کے دیگر علاقوں کی خوراک کی ضروریات بھی پور ی کر سکتی ہےں۔ جنوبی اضلاع کو ویسے تو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رکھا گیا ہے لیکن اسکے ساتھ انفراسٹرکچر کی ترقی میں جو سوتیلا سلوک روا رکھا گیا ہے اس کا اندازہ ان گیارہ اضلاع کو باہم مربوط کرکے صوبے کے وسطی اضلاع اور خاص کر صوبائی دارلحکومت سے جوڑنے والی مرکزی شاہراہ انڈس ہائی وے کی زبوں حالی سے لگایا جا سکتا ہے اسی طرح ہم بچپن سے جس چشمہ رائٹ بینک کینال کا ذکر تواتر سے سنتے آ رہے ہیں اور جسکے بارے میں ماہرین بار بار کہہ چکے ہیں کہ اسکی تعمیر سے کم از کم ڈھائی تین لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہونے کا امکان ہے کی تکمیل کے آثار تاحال دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ چراغ تلے اندھیرے کے مصداق جنوبی اضلاع پورے ملک کو تو تیل اور گیس سپلائی کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان اضلاع کے لاکھوں گھر آج بھی گیس کے گھریلو استعمال اور تیل کی رائلٹی سے محروم ہیںاسی طرح ماضی میں افغانستان سے اربوں روپے کی دوطرفہ تجارت کےلئے استعمال ہونے والے جنوبی اضلاع کے سرحدی تجارتی پوائنٹس پاڑہ چنار‘غلام خان اور انگوراڈہ قریب ترین اور سستے روٹس ہونے کے باوجود پچھلی دو دہائیوں سے بند ہیں۔جنوبی اضلاع میں اس وقت کوئی ہوائی اڈہ فنکشنل نہیں ہے حالانکہ یہاں ڈیرہ اسماعیل خان اوربنوں کے علاوہ کوہاٹ میں بھی ہوائی اڈہ موجود ہے لیکن یہ فضائی مستقر کئی سالوں سے بند پڑے ہیں جن کا نقصان یہاں کے لاکھوں شہریوں کو بیرون ملک روزگار اور حج وعمرے کےلئے اسلام آباد اور پشاور کے طویل سفر اور اخراجات کی صورت میں برداشت کرنا پڑرہا ہے حیرت ہے کہ موجودہ حکومت جو سارے صوبے میں یکساں اور برابری کی بنیاد پر ترقیاتی کاموں کا ڈنڈورا زور وشور سے پیٹ رہی ہے کی جانب سے جنوبی اضلاع کواب تک کوئی بڑا اقتصادی اور ترقیاتی پیکیج نہیں دیا گیا البتہ اب جب جماعت اسلامی نے ان مظلوم اضلاع کی زبان بن کر انکے حقوق کے حصول کےلئے جنوبی اضلاع حقوق کونسل کے پلیٹ فارم سے جد جہد شروع کی ہے تو حکومت کوپشاور تا ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے بنانے کا اعلان توکرنا پڑگیاہے البتہ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اعلان کو عملی جامہ کب اور کیسے پہنایا جاتا ہے ۔