آج نئے سال کا پہلا دن ہے‘لگتا ہے ماسک پہننے، معاشرتی دوری، وائرس کی تشخیص اور علاج وغیرہ سے متعلق خبریں 2021 میں بھی چھائی رہیں گی۔ علاج معالجے، نقل و حمل، پیغام رسانی ، ڈی این اے اور برقی کاروں وغیرہ میں عالمی سطح پر سائنس کی حیران کن ترقی کاسلسلہ جاری رہے گا۔ امریکہ میں ماحول دوست جو بائیڈن کی کامیابی اور اس سال انتخابات کے بعد جرمنی میں گرین پارٹی کی حکومت سازی میں متوقع اہم کردار سے امید کی جارہی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی پر بھی اب تیزی سے کام ہوگا۔جو بائیڈن بیس جنوری کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 46 ویں صدر بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہیں ایک منقسم امریکہ ملا ہے۔ افغانستان اور چین وغیرہ جیسے خارجہ پالیسی چیلنجز، پیرس موسمیاتی معاہدے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساتھ دوبارہ جا شامل ہونے، ایران سے جوہری پروگرام کے معاہدے کی تجدید، ششمالی کوریا کے میزائل یا جوہری تجربات اور امریکی حکومت اور کارپوریشنوں کے روس کی ہیکنگ سے پیدا شدہ مسائل وغیرہ انہیں درپیش ہیں۔ بائیڈن کو امید ہے وہ چین کے ساتھ معاملات ٹھیک کرلیں گے اور مرہم اور معافی کے اپنے اندرونی ایجنڈے پر بھی پیشرفت کرسکیں گے۔ کیا ان کی سرکردگی میں امریکہ ایک ہمدرد اور ذمہ دار ملک کےںطور پر ان سب امور پر مثبت کردار ادا کرسکے گا؟ اگر ہاں تو پھر امریکہ اور دنیا دونوں کو فائدہ ہوگا۔ انہیں اندرون ملک کانگریس کی طرف سے اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد میں مسائل بھی ہوں گے تاہم اگر بائیڈن چھ جنوری کو جارجیا میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کو جتوا سکیں تو کانگریس کی طرف سے وہ مطمئن ہو جائیں گے۔ امکان بہرحال یہ ہے کہ ٹرمپ اور ان کا سیاسی ورثہ بائیڈن کےلئے مستقل درد سر بنے رہیں گے۔ ماہرین کے مطابق امکان ہے کہ اس سال سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان سامنے آئے گا جو مشرق وسطیٰ میں ایک اہم پیش رفت ہوگی۔چین تیزی سے اپنا اثر ورسوخ پھیلا رہا ہے۔ 2020 میں بھارت کے ساتھ اس کا سرحدی تصادم ہوا۔ اس نے ہانگ کانگ پر ایک نیا قومی سلامتی قانون نافذ کیا جو برطانیہ سے کیے گئے معاہدے کے بظاہر خلاف تھا اور جس سے وہاں منظم عوامی احتجاج اب مشکل نظر آرہا ہے۔ اس نے تائیوان کو بار بار امریکہ سے تعلقات مضبوط کرنے پر دھمکانے کی کوشش کی۔ وہ عالمی سیاست اور معیشت پر اجارہ داری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں مشرق وسطی اس کی دلچسپی کا ایک اور میدان ہے۔ اندازہ ہے کہ وہ اگلے سات برس میں امریکہ سے آگے نکل کر دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ چین کے ساتھ ماحول ٹھنڈا رکھے گا یا چین کا مقابلہ کرے گا۔ آنے والے مہینوں میں اس حوالے سے سرد و گرم دونوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔غربت اور بے روزگاری میں بھی عالمی سطح پر اضافہ متوقع ہے۔ کوویڈ۔19 نے 2020 میں عالمی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا۔ اس سال عالمی پیداوار 5.2 فیصد تک سکڑنے کا امکان ہے۔ وبا سے پہلے شرح نمو 2.5 سے 3.4 فیصد تھی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے 2022 کے بعد عالمی معاشی نمو کےلئے اپنے تخمینے کو کم کردیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ عالمی غربت میں اضافہ 2020 سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔ غریب ممالک معاشی بدحالی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق وبائی امراض کی وجہ سے دنیا بھر میں انتہائی غربت میں ڈوبے لوگوں کی تعداد میں 120ملین کا اضافہ ہوا ہے۔چین واحد واحد بڑی معیشت ہے جس نے 2020 میں ترقی کی۔ کم ملکی قرضے، سمجھدار معاشی نظم و نسق ، اور کورونا وائرس پر موثر کنٹرول کے اشاریوں پر چینی معیشت 2021 میں دنیا کی ایک تہائی حصہ بن سکتی ہے‘ ستمبر گیارہ کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر حملوں نے دنیا کو تبدیل کر دیا تھااگر جو بائیڈن نے تمام علاقائی ملکوں اور نیٹو حلیفوں کی مدد سے افغان مذاکرات کی کامیابی کےلیے مخلصانہ کوشش کی تو وہاں امن آسکتا ہے۔نگورنو کاراباخ، ایتھوپیا، مراکو کے صحراوی قوم، اسرائیل فلسطین تنازعہ، روہنگیا مسلمانوں پر ظلم، افغان طالبان کا کامیابی، کشمیرمیں بھارتی اقدام وغیرہ جیسے واقعات طاقت کو مسائل حل کرنے کےلئے ایک بڑا عامل ثابت کیا ہے اور سفارت کاروں اور مصالحت کاروں کی وہ بات غلط ثابت کردی ہے کہ سیاسی مسائل کا کوئی فوجی حل نہیں ہوتا۔ دعا ہے کہ اس سال پرامن جمہوری تحریک آزادی و کامیابی کا واحد راستہ ثابت ہوجائے۔اگلے سال جرمنی، ہالینڈ، ایران سمیت دس ممالک میں انتخابات ہو رہے ہیں لیکن ماہرین کہتے ہیں دنیا بھر میں جمہوریت کو بھی لاحق خطرات بڑھ رہے ہیں۔ انتہاپسندی کےلئے اگر پہلے تیسری دنیا بدنام تھی تو اب امریکہ، فرانس اور بھارت جیسے بڑے بڑے بزعم خود جمہوریت کے علمبردار ممالک میں بھی تنگ نظری اور انتہاپسندی بڑھ چکی ہے۔ یہ سلسلہ اگلے سال مزید تیز ہونے کا امکان ہے۔ فریڈم ہاو¿س نے بھی اطلاع دی ہے کہ مسلسل چودہ سالوں سے پوری دنیا میں سیاسی حقوق اور شہری آزادیاں سکڑ تی جارہی ہیں۔ برازیل ، ہنگری ، فلپائن ، پولینڈ ، ترکی اور بھارت جیسے ممالک میں پاپولسٹ رہنماو¿ں نے ایسی پالیسیاں نافذ کیں جن سے جمہوری اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔ چین ہانگ کانگ میں بھی احتجاج اور اختلاف کو ںہت مشکل بنا رہا ہے۔ میانمار میں ماضی کی جمہوریت نواز آنگ سان سوچی کی حکومت کی چشم پوشی کی وجہ سے مسلمان اقلیت پر ظلم ڈھائے گئے۔ بیلاروس کے لوگ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ آنے والے امریکی صدر جو بائیڈن نے جمہوری اقدار کی بحالی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔