پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ایک سوچ ہمیشہ ہی سے موجود رہی ہے اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اس پر کچھ پیشرفت بھی ہوئی جب سابق وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے ترکی میں اسرائیلی حکام سے ملاقاتیں کیں‘ اُن ملاقاتوں کی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں جبکہ خورشید قصوری اُن کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایک بار پھر اس سوچ کے حامی سرگرم ہیں اور رائے عامہ بنانے کےلئے پہلی بار کھلی بحث چھیڑی گئی ہے۔ اس کےلئے ایک دوسرے پر الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ کون اسرائیل کا پرانا دوست ہے‘جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا اجمل قادری کو میدان میں اتارا گیا ہے تاکہ دو بڑی جماعتیں جو اس وقت حزب اختلاف میں ہیں انہیں دباو¿ میں لایا جا سکے اور کوئی مخالفت برقرار نہ رہے یا پھر مخالفت کرنے والوں کی اپنی ساکھ اس معاملے میں اس قدر مجروح کردی جائے کہ ان کی بات پُراثر نہ رہے‘اجمل قادری نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں ایک وفد نے اسرائیلی حکام سے ملاقات کی تھی اور وہ بھی اس وفد کا حصہ تھے‘پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے الزامات کی سیاست ملک کو کوئی فائدہ نہیں دے گی بلکہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنے روایتی عرب دوستوں کے ساتھ تعلقات کو خراب ہونے سے بچائے اور انہیں بھارتی پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے سے روکنے کی کوشش کرے۔ ستر برسوں میں کسی بھی بھارتی آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب اور ریاض دہلی سیکیورٹی تعاون کے امکانات پاکستان کی سلامتی کے لئے معمولی خطرہ نہیں سعودی شاہی خاندان اگر پاکستان کو قربانی پر مجبور کررہا ہے تو پاکستان کو اپنی سالمیت اور خودمختاری پر سمجھوتہ کئے بغیر سفارتی سطح پر کوئی راہ نکالنا ہو گی امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں خرابی پہلے سے مشکلات کی شکار معیشت کو بڑے نقصانات سے دوچار کردے گی پاکستان سعودی عرب کی طرف سے سٹیٹ بینک میں رکھوائے گئے دو ارب ڈالر واپس کرچکا ہے اور مزید ایک ارب ڈالر اگلے سال کے آغاز پر واپس کرنے کا پابند ہے۔ ان حالات میں اندرونی سیاست میں کوئی بھونچال مزید خرابی کا باعث بنے گا اور الزامات کی سیاست کا تسلسل کوتاہ بینی کے سوا کچھ نہیں۔ ابھی جس ایشیائی مسلم ملک کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات ہو رہی ہے اس میں پاکستان کے علاوہ دوسرا ممکنہ نام انڈونیشیا کا ہے جو مسلم دنیا میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حامی ایک مہم چلا رہے ہیں لیکن کسی کے پاس بھی قابل عمل تجویز نہیں کہ پاکستان کو اتنے بڑے سفارتی ایڈونچر سے کیا ملے گا؟ جیسے عرب امارات نے اس سفارتی ایڈونچر کے ذریعے ایف 35طیاروں اور ڈرونز تک رسائی حاصل کرلی ہے اسرائیل کی ٹیکنالوجی تک بھی اس کی رسائی ہوچکی ہے اور مستقبل میں مشترکہ دفاعی پیداوار کے منصوبے بن رہے ہیں۔ اِسی طرح اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض سوڈان نے دہشت گرد ملکوں کی فہرست سے اپنا نام نکلوا لیا ہے‘ معاشی پابندیوں سے نجات پائی ہے اور سب سے بڑھ کر مغربی صحارا پر خودمختاری تسلیم کرالی ہے۔ کیا پاکستان کے پاس کوئی موقع ہے؟ کیا اسرائیل جو بھارت کا دفاعی ساتھی ہے وہ پاکستان کو جدید امریکی و اسرائیلی دفاعی ٹیکنالوجی تک رسائی دے گا؟ کیا امریکہ بھارت کو ناراض کرکے پاکستان کےساتھ دفاعی شراکت بڑھائے گا؟ کیا سوڈان کی طرح پاکستان متنازع علاقوں (کشمیر) پر خودمختاری تسلیم کروا پائے گا؟ کیا سوڈان کی طرح پاکستان کو قرض ریلیف دیا جائے گا؟ یہ ہیں وہ سوالات جن پر غور اور مباحثے کی ضرورت ہے لیکن قومی سیاسی قیادت ایک دوسرے سے الجھی ہوئی ہے اور جہاں قیادت اُلجھی ہو وہاں قومی مسائل سلجھنا ممکن نہیں رہتا‘مستقبل کی منصوبہ بندی اور مستقبل پر نظر یکساں ضروری ہے۔ اُمید ہے کہ پاکستان کےلئے نیا عیسوی سال (دوہزاراکیس) مختلف اور عالمی تعلقات کو بڑھانے کی سمت پیشرفت (زیادہ بہتر) ثابت ہوگا۔ امید پر دنیا تو قائم ہے لیکن سفارتی اور حقیقی دنیا میں عمل سے راستے آسان اور اہداف کا حصول ممکن ہوتا ہے۔