دو ہزار بیس تو گیا رخصت ہوا ۔پھر نہیں آئے گا۔ مگر کیا کھویا کیا پایا اس کی یاد دلائے گا۔ وہ جو پچھلے سال ہم میں تھے وہ اب کے نہیں ہیں۔ ہر سال ایسا ہوتا ہے ۔مگر وہ جو ملکی حالات تھے کاش ایسے نہ ہوں وہ حالات پھر نہ آئیں ۔ہر میدان میں خواہ کھیل ہے کہ سیاسیات ہے یا اپنی ذاتی ڈائری کے اوراق ہیں سب کچھ دوبارہ دیکھنے کی ضرورت پیش آئے گی اس ملک نے کیا کھویا کیا پا لیا بہت مشکل ہے کہ ا س سوال کا درست جواب دیا جا ئے۔ مگر اگلا سال وہ کڑواہٹیں نہ لائے جو پچھلے سال کے دامن میں کنڈلی مار کر جوں سانپ بیٹھی ہوئی تھیں۔ پھنکارتے ہوئے شعلے اگلتے زہر جو شہریوں کو سموچا نگل گئے وہ شیرینی میں تبدیل ہو جائیں ۔کورونا کے وار اور بار بارپھردوبارہ ستمگار ۔پے درپے حملے جس نے صفِ انسانیت میں دراڑیں ڈال دی ہیں ۔ اپنوں کوایک دوجے سے جدا کر دیا ہے ۔ خونی رشتے ہیں اور آپس میں اس وائرس کے ہاتھوں گلے ملنے سے رہ گئے ہیں ۔نہ ہاتھوں سے ہاتھ ملانے کی اورنہ ہی کسی سے بغل گیر ہونے کی رُت ہے ۔کاش نئے سال میں اس عفریت کو بوتل کو بند کر دیا جائے۔نئے سال کی آمد کی خوشی بھی عجیب ہے۔دوہزار بیس آیا تو کتنی خوشیاں منائی گئیں۔ مگر اب کے اگلے سال میں وہ غم نہ ملیں جو پچھلے سال میں ملے تھے۔ سو خوشیاں منانے کی رسم تیاگ دی جائے۔ کیونکہ بیس بیس کی خوشیوں کے اندر خزاں چھپ کر رورہی تھی۔کسی کو کیا معلوم تھا ۔اس رات کی فائرنگ براہِ راست آکر ایک وقت میں شہریوں کا سینہ چیر جائے گی کسی کو کیا پتا تھا۔لوگ خوش تھے او رہنس رہے تھے چاروں اور ان پر تقدیر ہنس رہی تھی اور وقتاً فوقتاً ایسی بیماریوں یا سانحات سے انسانوں کا پالا پڑتا رہتا ہے جو ان کی آبادی کو کم کر دیتی ہے۔حالانکہ ایک ہی طرح کے دن اور رات ہیںاور ان کے اپنے اوقا ت ہیں وہی صبح و شام ہیں ان میں تو کمی نہیںآئی مگر کتنا اچھا ہو کہ ہم خود کو تبدیل کرلیں ۔ سال بدل جانے پردیوار پر لگے کلینڈر کو اتار کر دوسرا لگا لینے سے کیا ہوگا۔ ہزاروںسے سالوں سے سال بدل رہے ہیں ۔تبدیلی نے آنا ہوتاہے ۔ خواہ کیلنڈر کا صفحہ بدلے یا پورا کلینڈرہی سال کے آخر میں تبدیل کر لیں۔وقت تو نہ کم ہوا ہے اور نہ زیادہ ہوا ہے ۔وقت تو ایک خالی ڈبے کی مثال ہے ۔ جس میں دن اور رات کے بدلنے سے نیا پن پیدا ہوتا ہے۔ وگرنہ تو ایک ہی زمانہ ہے وہی جو پہلے تھا اور اب ہے اور کے بعد اگلے سال بھی وہی ہوگا ۔ ہاں کچھ جو بدلے گا تو سلیٹ پر نئے سوال کے لکھنے کے لئے پچھلا سوال مٹا دیا جائے گا۔” مٹنا پڑے گا اگلے سوالات کےلئے۔ ہم لوگ ہیںسلیٹ کے اوپر لکھے ہوئے۔“ ناصر کاظمی کا شعر یاد آیا ہے ” دائم آباد رہے گی دنیا ۔ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا“۔ یہ بس وقت کا ایک اپنا عارضی سا پیمانہ ہے پہلی جنوری سے آخری تاریخِ دسمبر تک ۔ حالانکہ محرم سے ایک اور سال شروع ہو تاہے ۔پھر چین کے ملک کا سال کچھ او رہے ۔اس کے علاوہ مالی سال الگ ہے ۔ہندی سال کے الگ مہینے ہیں ۔تعلیمی سال الگ مہینے سے شروع اور جداگانہ مہینے اختتام ہوتاہے ۔یہ تو بس پیمانے ہیں انچی ٹیپ کے فیتے ہیں ہاں اس میں گذرنے والے واقعات کو یاد رکھنے کےلئے تاریخ وار یاداشت مقررہوتی ہے سب اندازے او رتعینات ہیں ۔ حقیقت کچھ اور ہے اورقابلِ غور ہے اگر دو ہزار اکیس کو روک لیں تو اس پرخوشیاں منائی جا سکتی ہیں ۔یا بیس بیس کو واپس لے آئیں تو خوشی کا مقام ہے یہاں سب کچھ ہر چیز مجبور ِ محض ہے ۔اقبال کی نظم والدہ مرحومہ کی یاد میں“ اس فلسفے کو بہت واضح کرتی ہے فرماتے ہیں آسمان گردش کرنے پر مجبور ہیں اور سورج اور چاند کی اپنی گردشیں ہیں جو انھوں نے ہر حال میں ہر سال میں کرناہےں۔یہ پارے کی طرح سے بے قرار ستارے سیارے اپنے اپنے مدارمیں گول گھومنے پر مجبوری کے عالم میں گردش کرتے ہیں ۔کائنات کا ذرہ ذرہ تقدیر کے پنجرے میں قید ہے ۔وہ پنجرہ جس کا دروازہ بنایا ہی نہیں گیا۔جب کسی دانشور پر یہ مجبوری کا سماں واضح ہوتا ہے تو اس غم زدہ کے بہتے ہوئے آنسو¶ں کا سیلاب رک جاتا ہے ۔آہ یہ دنیا او ریہ چھوٹے بڑے ۔انسان بھی ماضی اور مستقبل میں قید ہو کر رہ گیا ہے ۔