زندگی کتنی آگے بڑھ گئی ہے ‘روزوشب گزرتے ہی جارہے ہیں ‘سالہاسال دور بہت دور ہوتے چلے گئے اور بتدریج جارہے ہیں جن لوگوں کے بچھڑنے پر میری زندگی کا سفر کتنا تکلیف دہ اور تاریک ہوگیا تھا اب میری یاد کے پنہاں خانوں میں اک خاکہ ہے جو مدہوم ہے گرد مٹانی پڑتی ہے اگر یاد آجاتی ہے لیکن ایک کہانی مجھے کبھی نہیں بھولتی اگرچہ میں نے زندگی کے ماہ و سال میں کئی کتابیں پڑھی ہیں کئی رسائل‘ میگزین‘ کہانیاں میرے دل کا سکون بنی ہیں اس وقت بھی یہ کہانی مجھے بے کل کرگئی تھی اور آج جب کہ میرا کل بھی شروع ہوچکا ہے یہ کہانی مجھے بے کل کرتی ہے ایک محنت کش باپ اپنی حلال کی کمائی سے اپنے بیٹے کو پڑھاتا لکھاتا ہے بڑا آدمی بناتا ہے اونچے خاندان میں شادی کرواتا ہے اور پھر باپ کا بڑھاپا آجاتا ہے وہ ایسے حالات کا شکار ہو جاتا ہے کہ بیٹے اور بیٹے کے گھر بار کا محتاج ہو جاتا ہے بیٹا آج بھی باپ کا اتنا ہی احترام کرتا ہے اور حکم بجا لاتا ہے‘ خدمت کرتا ہے لیکن بیوی بچوں کی آسائشوں کو پورا کرتے کرتے اتنا وقت نہیں لاپاتا کہ باپ کے پاس کچھ لمحات گزارے بیوی کے کہنے پر باپ کے کمرے اس کے ہاتھ کی پہنچ میں ایک گھنٹی رکھ دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی ضرورت کے تحت گھنٹی بجا کر نوکر کو بلا سکے کوئی پوتا پوتی بہو اس کمرے کی طرف رخ کرنے سے بھی گھبراتے ہیں کہ دادا باتیں کرے گا اور ان کی تربیت ایسی ہوئی ہے کہ دادا کی باتوں سے سب کو چڑ ہوتی ہے بیٹا اپنی فرصت کے چند لمحات باپ کے ساتھ ضرور گزارتا ہے اور نگاہیں چراتا ہوا باہر نکل جاتا ہے اور آخر ایک دن گھنٹی خاموش رہتی ہے دوسرے دن بھی گھنٹی خاموش رہتی ہے نوکر بھی خوش ہوتے ہیں آج بابا کو کچھ نہیں چاہئے لیکن باپ مرچکا ہوتا ہے گھنٹی باپ کے بستر کے نیچے گر چکی ہوتی ہے بیٹا روتا ہے چیختا ہے اپنے آپ کو مارتا ہے لیکن جانے والا باپ جاچکا ہوتا ہے کبھی نہ آنے کیلئے... ہوسکتا ہے یہ کہانی آپ کو زیادہ متوجہ نہ کرے آخر اس میں ہے ہی کیا‘ آپ کہیں گے یہ تو ہر گھر کی کہانی ہے ہر گھر میں اک بزرگ اپنی فالتو اور بے کار زندگی کو لے کر بیٹھا ہے ہم بہت ظالم لوگ ہیں لیکن آئیں ان خوش نصیب لوگوں کی بات کرتے ہیں جو اپنے بزرگوں کی پرواہ کرتے ہیں ان کی ایک آواز پر خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی فوراً دواڑتے ہیں وہ خوش نصیب بیٹیاں جو اپنی ماں کے ساتھ رہتی ہیں جو ان کی خدمت کرتی ہیں ہر بزرگ مرد یا عورت کو ایک بات کی شدت کیساتھ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی ان کی بات سنیں ایک ہنستا کھلتا باتیں کرتا ہوا انسان اچانک عمر کے اس حصے میں پہنچ جاتا ہے کہ اس کیساتھ بات کرنے والا ناپید ہوجاتاہے اس کی بات سننے والا کان کتراتا ہے آیئے عہد کریں کہ ہم اور آپ اپنے بزرگ ماں اور باپ کے پاس بیٹھنے کیلئے وقت نکالیں گے ان سے ان کے دوستوں کی باتیں کرینگے ان کی پسند کا کھانا بناکر کوشش کرینگے کہ ان کے ساتھ کھائیں اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کرینگے کہ وہ بزرگوں سے لاپرواہی نہ برتیں ان کی بات کو غور سے سنیں اور زندہ لوگوں کی طرح اسکا جواب دیں یہ جو اب بوڑھے ہوچکے ہیں ان ہی ہاتھوں نے ہماری پرورش کی موسم کی سختیوں میں ہمیں چھاﺅں مہیا کی‘ رات دن مشکلات کے سفر طے کرکے ہمیں تعلیم دی عقل کی بات سکھائی ہمیں کپڑے پہننے کا سلیقہ نہ تھا یہ سلیقہ انہوں نے دیا‘ ہماری ناک بہتی رہتی تھی اسی بوڑھی عورت نے زندگی کے کئی برس تک ہماری بہتی ناک کو صاف کیا راتوں کو اٹھ اٹھ کر ہماری بیماری کو دور کیا ایک ایک دانت نکالتے وقت جو تکلف مجھے ہوئی میرے ماں باپ نے اس سے زیادہ تکلیف مجھے راحت پہنچانے میں اٹھائی اسکی ہر دعا میں میری زندگی کیلئے آرزوتھی اور آج جب کہ میں خود گود میں بہتی ہوئی ناکوں والے بچے تھامے انکی چھاﺅں بن کر بیٹھ گیا ہوں تو اپنی بزرگ ماں اور بوڑھا باپ بوجھ بن گئے ہیںاگر آپ کے گھر میں بزرگ موجود ہیں تو جتنی خدمت کرنی ہے کرلیں موت کا اک دن مقرر ہے آپ کی خواہش کے مطابق کسی نے نہیں مرنا ہاں آپ کی بے اعتنائی اور بے پرواہی سے آپ انکو ایسی موت دینے کے ضرور قابل ہوگئے ہیں کہ جو وہ اپنے آنسوﺅں کو آنکھوں میں چھپا لینے کے قابل بھی نہیں ہوتے ۔
مجھے ایک ایسا شخص بھی یادآرہا ہے جو اپنی معذور ماں کا ہر کام خودکرتا تھا وہ بڑا افسر تھا اور نوکر اسکے آگے پیچھے پھرتے تھے اور وہ ماں کا نوکر بن کے زندگی کی راحت اپنے نصیبوں میں لکھواتا تھا اپنے ماں باپ کو گھنٹیوں کے سہارے مت چھوڑ دینا آپ کی اور میری جنت ماں باپ کی خدمت ہے مرجانے کے بعد‘ ماں باپ سے کی ہوئی زیادتیاں اتنی شدید ملامت بن جاتی ہیں کہ حساس انسانوں کیلئے اٹھتے بیٹھے وہ ملامت برداشت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے خصوصاً وہ ماں باپ جن کو انکی زندگیوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے ماں کسی بچے کے گھر تو باپ کسی اور بچے کے گھر‘ یا پھر ماں باپ کی موجودگی میں گھر جائیداد تقسیم کرلی جاتی ہے دیواریں کھڑی کردی جاتی ہیں اور وہ گھر جہاں انہوں نے زندگی کی دیواروں کی تعمیر کی ہوتی ہے اسکو اپنے جھوٹے اور چھوٹی خوشیوں کی خاطر بیچ دیا جاتا ہے ماں اور باپ دامادوں اور بہوﺅں کے گھر میں اپنا بڑھاپا گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اللہ پاک بھی اس بات کی بخششیں شاید ہی کرتا ہو کہ ہم ا پنے والدین کو آنسوﺅں سے رلا دیں ان کو بے چارہ کر دیں اور اپنا احسان مند بنالیں کاش میرے آنسو راستے بن جائیں اور میری یادیں سیڑھیاں بن جائیں اور میں اپنی ماں کو لینے کیلئے ان راستوں پر چلی جاﺅں اور کبھی بھی واپس نہ آﺅں مولانا جلال الدین رومی نے کہا تھا ماں باپ کے ساتھ تمہارا سلوک ایک ایسی کہانی ہے جو لکھتے تم خود ہو لیکن تمہاری اولاد تمہیں پڑھ کر سناتی ہے۔