کورونا وبا کا ممکنہ طور پر کارگر علاج (ویکسین) دریافت کرنے کی دوڑ میں کئی ممالک ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کا دعویٰ کر رہے ہیں تاہم عالمی وبا کے خلاف ویکسین کے مو¿ثر ہونے کی شرح اور فی ویکسین اِس کی قیمت دو ایسے بنیادی محرکات ہیں‘ جنہیں مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ مو¿ثر ویکسین بنانے میں اب تک کامیاب رہے ممالک میں سرفہرست 4 قسم کی ویکسینز امریکہ‘ برطانیہ اور روس میں تیار ہوئی ہیں۔ امریکہ کی موڈرنا (Moderna) اور فائزر (Pfizer)‘ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی جبکہ روس کی گمالیہ (Gamaleya) جیسے سپوٹنگ فائیو (Sputnik V) بھی کہا جاتا ہے کورونا کے خلاف 90 سے 95 فیصد تک مو¿ثر ہونے والی ادویات ہیں تاہم اِن کی فی ویکسین قیمتیں پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غریب ممالک کی مالی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ایک ویکسین زیادہ سے زیادہ چھ تک وبا سے تحفظ فراہم کرتی ہے اور وقت کے ساتھ اِس کی تاثیر کم ہونے کی وجہ سے کورونا وبا پھر سے لاحق ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ امریکہ کمپنی ’موڈرنا‘ کی بنائی ہوئی ایک ویکسین کی قیمت 33 ڈالر‘ فائزر فی ویکسین کی قیمت 20 ڈالر‘ آکسفورڈ یونیورسٹی فی ویکسین کی قیمت 4ڈالر جبکہ روس کی بنائی ہوئی فی ویکسین کی قیمت 10 ڈالر رکھی گئی ہے۔ اِن ویکسینز کے مقابلے چین کی دوا ساز کمپنیوں سائنوویک اور سائنوفارم کی تیار کردہ ویکسین فروخت کے لئے پیش کر دی گئی ہیں تاہم اِن کی کورونا وبا کے خلاف مو¿ثر ہونے کی شرح امریکہ‘ برطانیہ اور روس میں تیار ہونے والی ویکسین کے مقابلے کم (79فیصد) ہے۔ چین میں سائنوویک اور سائنو فارم کے علاوہ مزید کم از کم 2 ویکسین تیاری کے مراحل سے گزر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ’کین سائنو بائیولوجکس‘ ہے جو سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں تیاری کے تیسرے مرحلے میں ہے جبکہ دوسری ویکسین ’این ہوئی زی فائی لونگ کوم‘ نامی کمپنی کی ہے۔ ان کی ویکسین میں وائرس کا ایک اصلی ٹکڑا لے کر جسم میں داخل کیا جاتا ہے تا کہ جسم کا دفاعی نظام چوکنا ہو جائے۔ یہ ویکسین بھی حال ہی میں تیاری کے تیسرے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔دسمبر کے آغاز میں سائنوویک ویکسین کی پہلی کھیپ انڈونیشیا پہنچی۔ یہ بڑے پیمانے پر ملک میں ویکسینیشن پروگرام کی تیاری کا حصہ ہے۔ جنوری میں انڈونیشیا میں اٹھارہ لاکھ ویکسین کی دوسری کھیپ پہنچے گی۔پاکستان نے چین کی کمپنی سائنو فارم سے ویکسین خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کابینہ کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے ”چینی ویکسین کی خریداری کے حوالے سے تکنیکی مرحلہ مکمل نہیں ہوا اور ابھی اس کی پاکستان میں حتمی قیمت نہیں بتائی جا سکتی۔“ سائنو فارم کی 2 ویکسینز تصدیق کے بعد استعمال میں لائی جا رہی ہیں تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ پاکستان کون سی ویکسین اور کتنی قیمت کے عوض خریدے گا۔ مختلف حکومتی فیصلہ سازوں کے بیانات سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان ابتدا میں بارہ لاکھ ویکسینز خریدے گا جو کورونا وبا کے خلاف کام کرنے والے معالجین (فرنٹ لائن ورکرز) کو مفت فراہم کی جائیں گی۔ پاکستان نے نجی شعبے کو بھی اجازت دی ہے کہ اگر وہ کورونا وبا کے خلاف بننے والی ویکسینز درآمد کرنا چاہے تو بین الاقوامی طور پر منظور شدہ ویکسینز درآمد کر سکتا ہے۔ اِن فیصلوں اور پیشرفت کے ساتھ پاکستان میں ایک چینی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کے تجرباتی مراحل تیسرے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ کورونا کے خلاف چینی کمپنیوں کی ویکسین متعارف کروانے کے بعد ایشیائی اور عرب ممالک نے چین کی ویکسین ہی پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا اِس سلسلے میں پہلا فیصلہ انڈونیشیا کا سامنے آیا جس کے چند روز بعد کئی عرب ممالک نے جن میں متحدہ عرب امارات اور بحرین شامل ہیں نے سائنوفارم ویکسین کی منظوری دی۔ اِن کے علاو¿ہ سنگاپور نے کہا کہ سائینوویک‘ موڈرنا اور فائزر بائیو این ٹیک سمیت ویکسین بنانے والی کئی کمپنیوں سے خریداری کے معاہدے کر لئے گئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق چین میں کم سے کم چار کمپنیاں کورونا وبا کے خلاف مختلف قسم کی ویکسینز بڑے پیمانے پر تیار کر رہی ہیں سردست چین کی کوشش ہے کہ وہ کورونا کے خلاف عالمی سطح پر جاری ’ویکسین سفارت کاری‘ کی دوڑ جیت جائے۔ اِس سلسلے میں توجہ طلب ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ افریقائی ممالک کےلئے پہلے ہی دو ارب ڈالر قرض کا وعدہ کر چکے ہیں جن سے وہ اپنے لئے چینی ویکسین خرید سکیں گے جبکہ چین نے لاطینی امریکہ اور کیریبیئن ممالک کو بھی ویکسین خریدنے کے لئے ایک ارب ڈالر قرض کی پیشکش کی گئی ہے۔ یہ رقوم کن شرائط پر دی جائیں گی یہ تو معلوم نہیں لیکن چین کورونا وبا کی صورتحال میں ہر ممکن معاشی و اقتصادی فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کورونا وبا ایک چیلنج ہے جس سے جنم لینے والی صورتحال میں زندگی بچانے والی ادویات پر جاری سیاست اور تجارتی و سفارتی فوائد حاصل کرنے کی سوچ حیران کن ہونے سے زیادہ خوفناک ہے کہ انسانوں نے وبا سے کچھ نہیں سیکھا۔