ہم جسے لمبی عمر کہتے ہیں وہ حقیقت میں پل دو پل ہے ۔بلکہ فلسفی کہتے ہیں پوری کائنات جب سے بنی ہے اور اب تک کروڑہا سالوں سے سلسلہ جاری ہے ۔ پھرآئندہ بھی یہ گھوڑا بغیر باگ کے سرپٹ دوڑ تا رہے گا ۔مگر یہ سارا دورانیہ تو بس ایک پل ہے جو ابھی تک گزرا ہی نہیں۔کہکشاں کے گرد خود سورج کروڑوں سالوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے ۔ پھر اس کے گرد خود زمین کا گول گھومنا اور پھر اس پر بسنے والے انسان کی کیا زندگی۔ سورج نے ابھی اپنا چکر مکمل ہی نہیں کیا ۔وہاں ویران و بے آباد زمین پر آبادی ہوئی اور لاکھوں سال بھی گزر گئے۔بلکہ غالب تو حد کر گئے۔ کہا ” ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد۔ عالم تمام حلقہ ¿ دامِ خیال ہے “ ۔اگر کہو کہ ہے تو نہیں ہے ۔یہ سب کچھ جو اپنے ہونے پہ یقین ہے وہ محض خیال ہے ۔ہر چند کہ ہے نہیں ہے ۔غالب ہی نے ایک او رجگہ کہا” گرمی¿ بزم ہے اک رقصِ شرر ہونے تک“ مراد یہ کہ کائنات کی یہ لمبی عمر جس کو وہم کرنے والے بہت طویل کہتے ہیں وہ تو چنگاری کا نکلنا اور غائب ہونا ایک ہی برابر ہے ۔اتنا کم عرصہ جس میں ہم جی رہے ہیں۔مگر یہ ریتی پر چھری چاقو تیز کرتے وقت کا چنگاری کا صرف نکلنا مراد نہیں بلکہ اس کو رقص کہا ہے ۔ کیونکہ جس طرح چنگاری بل کھاتی ہوئی نکلتی ہے اور غائب ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح دنیاپر انسانوں کی سرگرمیاں ہیں رات دن کو الگ الگ اور ہر خطے میں صبح شام جدا۔جیسے رقاصہ محوِ رقص ہو اس کے نتھنے سانس لیتے ہوئے اوپر نیچے ہوتے ہوں اوروہ لمحہ بہ لمحہ پہلو تبدیل کر کے اپنے فن کا مظاہر کر رہی ہو۔ چنگاری بھی اسی طرح اپنی مثال آپ ہے۔ مگر کیا ہے کہ نہایت کم عرصہ کےلئے اس کی زندگی دوسروں کےلئے دلچسپ ہے ۔بہادر شاہ ظفر نے جب کہا تو سوچ سمجھ کر کہا ” عمرِ دراز مانگ کرلائے تھے چار دن ۔ دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں“ ۔ پھر سرسید احمد نے اپنے ایک مضمون میں یہی بات کی ”زندگی چار روزہ ہے مگر کم بخت وہ بھی بہت کٹھن ہیں۔ میر تقی میر کو لیں ” ہستی اپنی حباب کی سی ہے ۔یہ نمائش سراب کی سی ہے “ ۔اگرچہ ہماری زندگی پانی کے بلبلے کی طرح مختصر ہے مگر یہ درازی عمرکا احساس ہونا بھی تو ایک دھوکا ہے ۔” کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات۔ کلی نے یہ سن کر تبسم کیا“۔ یا وہ شعر” مختصر سی ہے یہ گل کی داستاں ۔ شاخِ ہستی پر کھلا مرجھاگیا” یا وہ شعر لیں ” آتے ہوئے اذاں ہوئی جاتے ہوئے نماز ۔ اتنے قلیل وقت میںآئے چلے گئے۔ کہنا یہ ہے کہ ہم جس کو سالوں کہتے ہیں وہ انتہائی کم وقفہ ہے ۔ہر شاعر ادیب اور فلسفی مفکر نے زندگی کے کم عرصہ کو کسی نہ کسی چیز کی مانند ظاہر کیا ہے ۔” لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے ۔اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے “۔اقبال نے کہا ہے کہ ” مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں ۔ مگر گھڑیاں جدائی کی گذرتی ہیں مہینوں میں “۔جیسے کمر کے پیچھے سے بلی اپنے پنجوں کے بل پر گذر جائے او رہمیں پتا تک نہ چل سکے اسی طرح عمریں بھی پنجوں کے بل گذر جاتی ہیں۔ کل کیاتھا او رآج کیا ہے اس کا تو پتہ ہے۔ مگر آنے والے کل میں کیا ہوگا اس کو کس کو پتا ہے ۔زندگی کا دورانیہ تو ویسے بھی مختصر ہے مگر جب محوس کیا جائے تو اس طرح بھی کم سے کم ترین سطح تک پہنچ جاتا ہے ۔ میر تقی میر نے کہا ” گل کو ہوتا صبا قرار اے کاش ۔ رہتی ایک آدھ دن بہار اے کاش “ اس نے زندگی کو ایک آدھ دن کا پیریڈ قراد دیاہے ۔دکھیاری کےلئے طویل اور خوشحالی کےلئے زندگی قلیل بلکہ قلیل ترین ہے ۔” کچھ سمجھ میںنہیں آتا ہے عدم ۔آرہا ہوں کہ جا رہاہوں میں“۔اب تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکا کہ ” وقت گذرا ہے کہ میں گذرا ہوں“۔کوئی اس حیات کو پانی کے بلبلے کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے ۔ کوئی زندگی کو ایک پل قرار دیتا ہے کوئی پل دو پل کا شاعر بن جاتا ہے کوئی ایک آدھ دن کہتا ہے کوئی اس کو دو دن کہتا ہے ” دو دن کی زندگی ہے اسے یوں گذار دے“۔کوئی چار روزہ کہتا ہے کوئی مہینہ بھر کوئی مائیکرو سیکنڈ کہتاہے جو ابھی گذراہی نہیں ہے ۔جوش ملیح آبادی اسی لئے دنیا کو ایک کھیل کہتا ہے ۔ بہر حال سرسید کے قول کو دہراتا ہو ںکہ ”اگر زندگی چار روزہ ہے تو یہ کم بخت یہ چارروز بھی بہت کٹھن ہیں“