نیویارک حیرت انگیز شہر

یہ وہ وقت تھا جب میں مغربی ممالک کے بارے میں بہت کم جانتی تھی۔ میں کینیڈا اپنے بچوں کے ساتھ سیر کیلئے آتی تھی۔ لیکن میں نے نیویارک بھی جانا تھا۔ کینیڈا کچھ دن گزارنے کے بعد گرے ہاونڈ کی بس کے ذریعے ہم تینوں نیویارک جانے کیلئے روانہ ہوئے۔ خوبصورت صاف ستھری اور کشادہ سیٹوں والی گرے ہاﺅنڈ کی بس اپنی سہولتوں کے باعث آج بھی میرے حافظے میں کہیں موجود ہے۔ گرے ہاﺅنڈ کا نیویارک والا اڈہ اتنا وسیع و عریض ہے کہ اس اڈے پر ہوائی جہاز یا ریلوے سٹیشن کا گمان ہوتا ہے۔ ہزاروں مسافر نظر آرہے تھے۔ ہر شخص بکس ہاتھ میں لئے بجلی کی سیڑھیوں پر جلدی سے چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا اور سینکڑوں لوگ آنے والی بجلی کی سیڑھیوں سے نیچے بھی اتر رہے تھے میں نے نیویارک کے بارے میں ہزاروں باتیں سنیں تھیں جن میں ایک بات بہت ہی اہم میرے ذہن میں جیسے چپک گئی تھی کہ دنیا میں سب سے زیادہ جرائم نیویارک میں ہوتے ہیں اور یہی جملہ اس وقت میرے سامنے جلی حروف سے نمایاں ہوکر کھڑا تھا۔ مجھے اپنے خوبصورت اور نوجوان بیٹوں کی ازحد فکر تھی لیکن وہ ٹی وی فلم اور کمپیوٹر کی دنیا سے آشنائی کی بدولت کافی تیز طرار دکھائی دے رہے تھے۔ چند کالے لوگ بار بار ہم سے کچھ کہنے لگے۔ نہ جانے وہ میری مدد کرنا چاہتے تھے یا ٹیکسی ڈرائیور تھے یا مانگنے والے تھے۔ ان کی عجیب وغریب انگریزی بولنے کا انداز میرے سر کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ گاڑیوں کی شن شن سے دماغ ماﺅف تھا۔ ہر چیز مجھے بھاگتی ہوئی چیختی چنگھاڑتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی لیکن بہت جلدی مجھے اپنے میزبان کی شکل دکھائی دی۔ گو کہ میں اس کو پہلی دفعہ دیکھ رہی تھی لیکن ہم دونوں نے ہی ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ ہم ایک سڑک عبور کرکے پارکنگ میں کھڑی ہوئی ایک وین میں بیٹھ گئے اور کچھ لمحے سکون کا سانس لیا۔ وین کسی اجنبی سڑک پر دوڑنے لگی۔ نیویارک اپنی بلند وبالا عمارتوں کیلئے خاصی شہرت رکھتا ہے۔ ابھی راستے میں کچھ عمارتوں پر میری نظرپڑی ہے اور حیرت کا سماں میرے اوپر طاری ہے لیکن کل میں باقاعدہ اس شہر کسی سیر کیلئے نکلوں گی تو کچھ زیادہ تعارف ہوگا۔ مہنگے شہروں میں اتنے مہربان میزبان کے گھر میں مفت رہائش او کھانا پینا مل جائے تو کیا کہنا۔ ہمارے میزبان نہایت شفیق انسان ہیں ایک بیٹا ایک بیٹی۔ بیٹی جوان ہے اور دماغی مرض میں مبتلا ہے اور مرض ایساہے جس میں وہ وقفے وقفے سے بے ساختہ چیختی ہے۔ میرے بیٹے ہر دفعہ اس کے چیخنے پر ڈر کے مارے میرے قریب ہوکر میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا دل غم سے ڈوب گیا۔ کسی بھی والدین کیلئے جوان اولاد کا یہ مرض کس قدر ہولناک اور درد ناک ہوتا ہے۔ ہم دو دن کیلئے آئے ہیں اور برداشت نہیں پاتے۔ ماں باپ نہ جانے کب سے کئی سالوں سے یہ کربناک چیخ وپکار سے اپنے دل کے زخموں کو چھلنی کئے ہوئے ہےں۔ میں نے دیکھا ہماری خاتون میزبان بھی چڑچڑی اور ناراض سی طبیعت کی لگ رہی ہے۔ شاید وہ اپنی بیٹی کی اس حالت کو کسی اور کے ساتھ شریک نہیں کرنا چاہ رہی میں نے سوچا میں کل ہی واپس چلی جاﺅنگی لیکن ہمارے شفیق میزبان نے اگلے دو دنوں میں میری اس قسم کی ہر کوشش ناکام بنادی۔اگلے دن صبح ناشتہ کیا اور ان ہی کے ٹیلی ویژن پر یہ دردناک خبر بھی سنی کہ جے ایف کینیڈی ائیر پورٹ سے اڑنے والا ائیر فرانس کا ٹرانس ورلڈ فلائٹ800 بوئنگ747 بحر اقیانوس کی ایک دلدل میں گر کر غائب ہوگیا۔ اور اپنے اڑنے کے 12 منٹوں کے بعد 230 مسافروں سمیت جہاز غائب ہوگیا۔ ٹی وی کے کیمرے دلدل میں موجود مگرمچھوں کی تصاویر باربار سکرین پر بتا رہے تھے اور یہ وہ جہاز تھا جس میں امیر ترین تاجر سفر کرتے ہیں کیوں کہ اس کی رفتار اتنی تیز ہے کہ عام جہاز سے آدھے وقت میں اپنی منزل میں پہنچ جاتا تھا۔ اس حادثے نے مجھے بھی وقتی طورپر نہایت مضمحل کردیا اور آج کئی سال گزرنے کے بعد بھی جہاز اپنے مسافروں کے سمیت کبھی بھی نہیں ملا۔ آج ہم نے سب وے استعمال کرکے آزادی کا مجسمہ دیکھنے جانا ہے نیویارک کی سب وے ریلوے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ تقریباً دو صدیاں ہوگئی ہیں اس کو بنے ہوئے نیویارک کا سب وے میٹرو سٹیشن ڈیڑھ صدی سے بھی زیادہ وقت سے کروڑوں لوگوں کو ان کی منزل تک لاتا اور لے جاتا رہتا ہے اور میرا میزبان اس نظام سے اس قدر آشنا ہے کہ وہ ایک ٹرین سے اتر کر دوسری اور دوسری سے اتر کر تیسری ٹرین پر آسانی کے ساتھ سفر کررہا ہے ہم تو سب بس اس کے پیچھے پیچھے روبوٹ کی طرح چل رہے ہیں۔ بالآخر ہم سمندر کے کنارے پہنچ گئے ہیں اور وسیع پارک میں آگئے ہیں۔ اس پارک کو ہم جلدی سے پیدل عبور کرر ہے ہیں تاکہ سمندر کے کنارے پر چلنے والی اس فیری کو لے سکیں جس میں بیٹھ کر آزادی کے مجسمے تک پہنچ سکیں گے۔