بھارتی کسانوں کا احتجاج جاری ہے یہ احتجاجی اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ بھارت کی مرکزی حکومت کسانوں کے احتجاج کو شروع دن سے سنجیدہ نہیں لے رہی بلکہ کسی حد تک کسانوں کے تھکنے کا انتظار کرتی رہی۔ خود کو ایشیا کا چوکیدار سمجھنے والے ملک کو اس وقت کئی اندرونی مسائل کا سامنا ہے۔ کبھی اقلیتوں کے ساتھ مسائل بین الاقوامی میڈیا پر موضوع بنتے ہیں تو کبھی کشمیر کی صورتحال اور کبھی کسانوں کا مہینے بھر سے چلنے والا مارچ اور احتجاج۔ کورونا وائرس کی وجہ سے سال دوہزاربیس پوری دنیا کی معیشتوں کے لئے نقصان دہ رہا اور اِس عرصے میں بھارت بھی اپنے مقررہ معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ سال بھارت کی ترقی کی شرح قریب چھ فیصد رہی۔ بھارتی زراعت کا شعبہ گزشتہ کئی برس سے احتجاج دیکھ رہا ہے۔ اب تک کئی ہزار کسان معاشی تنگیوں سے مجبور ہوکر خودکشیاں کر چکے ہیں اور یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی زرعی شعبہ اہمیت کا حامل ہے۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق پچاس فیصد بھارتیوں کے روزگار زراعت کے شعبے سے جڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کی خام قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں تیئس فیصد حصہ رکھنے والا شعبہ سڑکوں پر نکل آیا ہے اور جاڑے کے سخت دنوں میں ہزاروں کا مجمع پیدل‘ ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر دارالحکومت دہلی کی جانب سفر کر رہا ہے اور یہ تنازعہ ستمبر دو ہزار بیس کے تیسرے ہفتے سے جاری ہے جب حکومت نے زرعی اصلاحات کے حوالے سے راج سبھا میں تین قوانین پیش کئے جن میں سے دو بل منظور کر لئے گئے۔ حکومت نے راج سبھا سے بل پاس کروانے میں یوں بھی پھرتی دکھائی کہ اسے وہاں اکثریت حاصل ہے۔ اپوزیشن ابھی ان پر مزید بحث کرنا چاہتی تھی لیکن اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود بل پاس کروا لئے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اِس سلسلے میں بھارت کے صدر سے ایک موقع پر ملاقات بھی کی اور ان پر زور دیا کہ وہ کسانوںسے متعلق مذکورہ قوانین پر دستخط نہ کریں لیکن صدر نے نئی زرعی اصلاحات کے مسودہ پر دستخط کر دیئے۔ بنیادی طور پر ان تین قوانین میں زرعی منڈیوں کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نجی کمپنیوں کو زرعی منڈیوں کے نظام میں شامل کیا گیا ہے۔ موجودہ منڈی کے نظام میں حکومتی شمولیت کی وجہ سے کسانوں کو کم از کم ان کی فصل کا بہتر معاوضہ مل رہا تھا جبکہ حکومت کی رائے میں نئے قانون کے ذریعے آزاد منڈیوں سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ قانون کے مطابق زرعی اجناس کی فروخت کے طریقہ کار‘ مقررہ قیمت اور ذخیرہ کرنے کے نئے اصول بنائے گئے ہیں۔ نجی اداروں کو منڈی سے باہر ہی باہر فصل خریدنے کی آزادی دی گئی ہے اس کے علاوہ یہ بھی واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ پارٹی کسان کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ صرف اس کی مقرر کردہ فصل اگائے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آزاد منڈیوں کی بنیاد اس لئے رکھ رہی ہے تاکہ چھوٹے کسان اس سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں لیکن بنیادی طور پر کسان اس لئے پریشان ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب منڈی سے باہر ہی باہر نجی کمپنیاں فصل خرید کر ذخیرہ کرلیں گی تو کسانوں کو ان کی محنت کا پھل نہیں مل سکے گا۔ بھارتی کسانوں کو خطرہ ہے کہ بڑے صنعتی گروپ (مثلاً ایڈوانی اور امبانی) زرعی اصلاحات سے خوب فائدہ اٹھائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ کسانوں کی بیس سے زیادہ تنظیمیں اس وقت احتجاج میں شامل ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی کسانوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔ بھارتی کسان سمجھتے ہیں کہ ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ منڈی میں اپنی فصل کی خود قیمت لگائیں۔پچیس نومبر دوہزاربیس سے شروع ہونے والا احتجاج جاری ہے اور کسان اپنے مطالبات پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارتی کسانوں کے اتحاد کے سامنے حکومت کتنے دن کھڑی رہ سکے گی جبکہ کسانوں کے احتجاج سے 1800صنعتیں بند ہو چکی ہیں او بھارتی معیشت کو ہر دن ساڑھے تین ہزار کروڑ (بھارتی) روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔