امریکہ افغانستان میں ناکام کیوں؟

امریکہ 19 سال سے افغانستان میں لڑ رہا ہے۔ اس کے 2400 فوجی اہلکار وہاں مرچکے، 21000 زخمی ہوئے اور ایک کھرب ڈالر خرچ ہوئے۔ تقریباً پانچ لاکھ افغانی اہلکار، طالبان جنگجو اور عام شہری جاں بحق یا زخمی ہوئے۔ اگرچہ اسامہ بن لادن کی موت، القاعدہ کی کمزوری اور افغانستان میں مقیم کسی گروہ کی جانب سے امریکہ پر پھر کوئی بڑا حملہ کرنے میں ناکامی اہم کامیابیاں ہیں مگر امریکہ اب تک وہاں جنگ ختم کرنے یا جیتنے میں ناکام رہا ہے۔اگرچہ امریکہ اور افغانستان اپنی غلطیاں اور ناکامیاں چھپانے کےلئے پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کرنے اور وہاں امن کےلئے مخلصانہ کوششیں نہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں لیکن پاکستان عرصے سے افغانستان میں دیرپا امن کےلئے کوشاں ہے کیوں کہ اسے وہاں بدامنی کا براہ راست نقصان اور امن کا فائدہ پہنچتا ہے۔ امریکہ اس کے تعاون کا اعتراف بھی کرتا رہا ہے ہاں پاکستان کو گلہ ہے کہ بھارتی اور افغان خفیہ ادارے پاکستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتے اور افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں لیکن امریکہ نے اب تک انہیں نہیں روکا۔ بہرحال افغانستان میں امریکہ اب تک چند وجوہات سے کامیاب نہیں ہوسکا۔ آئیے دیکھتے ہیں۔ افغانستان میں جیت مشکل تھی لیکن غلطیوں نے اسے ناممکن بنا دیا۔ یہ جنگ ایک قابل گریز حماقت تھی جو امریکی رہنماو¿ں کی حد سے زیادہ خود اعتمادی، غیر مستقل مزاجی، غلط ترجیحات، حقائق سے ناواقفیت یا چشم پوشی کی وجہ سے ایک سانحہ میں بدل گئی اور اب بھی ایک حل طلب مسئلہ اور رستا ہوا ناسور ہے۔افغانستان سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے۔ امریکہ نے اس کی تاریخ نظرانداز کرتے ہوئے افغانستان پر حملہ کردیا۔ جارح کی مزاحمت اور اپنے وقار، مذہب اور وطن کا دفاع افغانیوں کی سرشت میں ہے۔ طالبان قبضے کے خلاف مزاحمت کے علمبردار بن کر آئے تو بہت سارے افغانی طالبان کی طرف سے مارنے اور مرنے پر راضی ہوگئے۔بش کا مقصد طالبان کو شکست دینا تھا لیکن نائن الیون میں طالبان بالکل ملوث نہیں تھے۔ نہ وہ عالمی ایجنڈا رکھتے تھے اور نہ انہوں نے کسی کو غیرملکی دہشت گردی کی اجازت دی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس وقت القاعدہ کو پناہ گاہ کے طور پر افغانستان استعمال کرنے سے روکنے کے قابل بھی نہیں تھے۔ نائن الیون کا الزام ان پر آیا تو افغان روایات کے برعکس طالبان نے اپنے مہمان اسامہ اور ان کے ساتھیوں کو افغانستان چھوڑنے کا کہا اور وہ بات چیت اور ان پر کسی غیرجانبدار ملک میں نائن الیون کا مقدمہ چلانے کےلئے بھی تیار تھے مگر امریکہ نہ مانا اور امریکہ میں اس حملے پر انٹلی جنس کی ناکامی یا دہشتگردوں کی مدد پر تحقیقات کرنے کے بجائے اس نے افغانستان اور اس کے حمایتیوں کو پتھر کے دور میں پہنچانے کی باتیں شروع کردیں۔ طالبان سے بات پاکستان کے ذریعے ہوسکتی تھی لیکن اسے بھی "آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمنوں کے ساتھ" کہہ کر ساتھ ملایا گیا اور اس طرح افغانستان اور پاکستان جیسے اتحادیوں کو خطرات میں دھکیل دیا گیا۔ افغانستان پر حملہ کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ بات چیت سے القاعدہ کا مسئلہ حل کیا جانا ممکن تھا مگر طاقت کے زعم میں افغانستان پر "قالینی بمباری" شروع کردی گئی۔ طالبان القاعدہ کی طرح دہشت گرد قرار دئیے گئے۔ طالبان روپوش ہوگئے اور امریکہ کو زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بمشکل دو سال بعد امریکی سنٹرل کمانڈ نے اسے" ختم شدہ طاقت" قرار دیا۔ رمز فیلڈ نے 2003 کے اوائل میں ایک نیوز کانفرنس میں اعلان کیا: “ہم واضح طور پر بڑی جنگی سرگرمی سے مضبوطی، استحکام اور تعمیر نو کی سرگرمیوں کی طرف منتقل ہوچکے ہیں۔ مشن پورا ہوگیا ہے"۔انتظامیہ نے کرزئی، خلیل زاد، امریکی لیفٹیننٹ جنرل کارل ایکن بیری (اس وقت افغانستان میں سینئر امریکی جنرل) ، رونالڈ نیومن (اس وقت افغانستان میں امریکی سفیر) اور دیگر کے دلائل کو نظرانداز کیا کہ طالبان واپس آرہے ہیں۔ اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ وہ افغانستان کی جنگ جیت چکے ہیں، بش اور اس کی ٹیم نے عراق پر حملہ کردیا۔ یہ ایک فاش غلطی تھی۔بش انتظامیہ کے بعد آنے والے سیاسی بندوبست سے طالبان کو خارج کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ چند طالبان رہنماو¿ں نے دسمبر 2001 میں کرزئی کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ہتھیار ڈالنے اور کرزئی کو ملک کا جائز رہنما تسلیم کرنے پر راضی تھے۔ لیکن امریکی سیکریٹری دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ نے اس امکان کو مسترد کردیا۔ اس کے بعد 2002 اور 2004 کے درمیان طالبان رہنماو¿ں نے دوبارہ کرزئی سے سیاسی عمل میں حصہ لینے کےلئے رابطہ کیا۔ کرزئی نے یہ پیغام امریکی عہدیداروں کے سامنے رکھا لیکن بش انتظامیہ نے طالبان رہنماﺅں سے مذاکرات پر پابندی عائد کردی۔ آخر میں نئی حکومت طالبان کے بغیر قائم ہوئی۔ اگرچہ پورے طالبان سے سمجھوتہ ناممکن تھا تاہم اگر چند سینئر رہنما و¿ں سے بات چیت کی جاتی تو شاید اس سے تشدد کافی کم ہوچکا ہوتا۔امریکہ کامیابی کا بیانیہ پھیلاتا رہا مگر 2003 کے اوائل میں ملا عمر، جو روپوش تھے، نے طالبان کو تحریک کو از سر نو تشکیل کرنے اور چند سالوں میں کسی بڑے حملے کی تیاری کرنے کا پیغام دیا۔ 2006 میں طالبان مزاحمت مضبوط ہوگئی۔ امریکی فضائی حملوں اور رات کے چھاپوں نے افغانوں میں ظلم و جبر کا احساس اور بہت سوں میں مزاحمت بڑھا دی۔ تشدد آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ فروری 2006 میں طالبان ابھرنے لگے۔ ہزاروں طالبان نے پورے اضلاع پر قبضہ کرنااور صوبائی دارالحکومتوں کا گھیراو¿ کرنا شروع کردیا۔ اگلے تین سالوں کے دوران طالبان نے ملک کے بیشتر جنوبی اور مشرقی حصوں پر قبضہ کرلیا۔ امریکی افواج اور ان کے نیٹو اتحادیوں کو زبردست لڑائی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2008 کے آخر تک امریکی فوج کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ہو چکی مگر وہ اس لہر کو روک نہ سکی۔ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی کے حوالے سے مزید اظہار خیال اگلے کالم میں کرینگے۔