انسانوں کے دوسرے انسانوں پر حقوق ہیں۔ اسی طرح جانوروں کے بھی انسانوں پر حقوق ہیں۔ وہ جانور جو انسانوں سے دور ہیں ۔وہ تو براہِ راست آدمی کی پہنچ میں نہیں ہیں ۔ مگر وہ جو انسانوں کے قبضہ میں ہیں ۔وہ جانور جو آزاد ہیں مگر انسانوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں ۔یہ سب انسانو ں کی طرف سے ایک بہتر رویہ کے خواہش مند ہیں۔ کیونہ اگر یہ انسان نہیں مگر بے جان نہیں ۔اگر حیوان ہیں تو ان کے احساسات ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں انسانوں کی پروا نہیں وہاں خود انسان اپنے قریب کے رہنے والے جانوروں کی کیا پروا کرے گا۔ ہر چند کہ ہمارے ہاں گائے بھینس اور دیگر پالتو جانوروں کےلئے ہسپتال بھی قائم ہیں ۔مگر ہم ان جانوروں کو جو ہمارا ساتھ دیتے ہیں اور ہماری زندگی بہ احسن کاٹنے میں ہماری مدد کرتے ہیں ۔ہمیں فائدہ پہنچاتے ہیں ۔ مگر ہم ان کو نقصان پہنچانے کے در پے ہوتے ہیں۔خودہماری اپنی روٹی پوری نہیں ہوتی تو جانوروں کی خوراک کے بارے میں کسی کو کیا پروا ہوگی۔ہاں خود کی پروا کرتے ہیں ۔مگر حیوانوں کی باری آئے تو یہ جانوروں کے تعاون کو بھول جاتے ہیں۔ ان کو خورا ک کےلئے دیا نہ دیا۔ بھول گئے تو بعد میں دے دیں گے۔ مگر اپنی خوراک نہیں بھولیں گے۔اپنے بال بچوں کو پالیں پوسیں گے ۔ مگر اپنے ساتھ رہنے والے ان حیوانو ں کی خوراک سے ان کو بے خبری ہوتی ہے۔جن پرندوں کو اڑایا جاتا ہے انھیں جان بوجھ کر بھوکا رکھا جاتا ہے ۔تاکہ ان اڑنے کی کارکردگی بہتر رہے ۔ سو ان کو شام کے وقت جب دن بھر ان سے مزا لے لیا جاتا ہے کھاناڈالاجاتا ہے ۔یہ بہت آزار کی بات ہے ۔پھر خود تو کوشش کریں گے کہ پیٹ بھر کر کھائیں مگر جانوروں کو ان کی اوقات کے مطابق کھلائیں گے۔ہمارے ہاں جانوروں کی فلاح و بہبود کےلئے بھی قانون موجود ہیں ۔ مگر ان پر تو وہ عمل کرے جو پڑھا لکھا ہو ۔مگر لکھے پڑھے ہونےوالے بھی جانوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں۔گدھا گاڑی پر حد سے زیادہ سامان لاداہواہے ۔پھرگدھے کی کمر پر چابک پہ چابک مارے جار ہے ہیں۔ یا پھر کولڈڈرنک کی لیٹر دو لیٹر والی بوتل میں چھوٹے پتھر ڈال کر ان کو خوفزدہ کر کے سڑکوں پر تیز دوڑانے کےلئے ان کی پیٹھ پیچھے بوتل کو خوب بجاتے ہیں ۔ چند دنوں قبل جب باہر ملک میں رات کو آتش بازی ہوئی اور نئے سال کو خوش آمدید کہا گیا۔ اس وقت اس آتش بازی کے بعد دن کے وقت لوگوں نے دیکھا کہ ہزاروں پرندے مرے پڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کو رات کے وقت اس شور شرابے اور آوازوں کی دھمکار سے خوف ہوا اور وہ دہشت کی حالت میں دل کے فیل ہونے جانے سے مر گئے۔ہم انسان بھی کیا شئے ہیں ۔بھول جاتے ہیں کہ جہاں ہمارے اپنے حقوق ہیںوہیں ہمارے فرائض بھی ہیں ۔ فرض کی ادائیگی کی طرف تو آتے ہی نہیں۔کاون ہاتھی کو پاکستان سے بیرون ملک بھیج دیا گیا۔ کیونکہ وہ یہاں بیمار ہو گیا تھا۔ یہاں انسانوں کو کوئی نہیں پوچھتا تو جانوروں کی کون نگہداشت کرے گا۔کس کس جانور کو یہاںسے بیرون ملک اس کے اصل ماحول میں بھیجیں گے۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں کتوں کا ایک بہت برا ٹریننگ سنٹر ہے جہاں ان حیوانوں کو انسانوں کے گھروں میں رہنے کا طریقہ سکھلایا جاتا ہے۔ پھرجب یہ جانور ٹرین ہو جائے تو اس کو اچھے کتے بنا کر دوسروںکے گھروں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں بند ر کو روٹی دینے کےلئے خود بندر کامالک اس کو نچاتا ہے ۔اس کو تماشابنا کرسرِ بازار اس کا رقص کرواتا ہے۔ جس کی وجہ سے بچے بڑے جب پیسوں کی بھان دیتے ہیں تو یہ بندر اپنے اور اپنے مالک کےلئے روٹی کماتا ہے۔گرمی ہو تو گرمی کے عالم میں ہمارے ہاں جب چیل انڈا پھینک رہی ہوتی ہے تو اس وقت گدھاگاڑیوں پر پیپل منڈی سے مال لوڈ ہوتا ہے اور سبزی منڈی سے اور پھاٹک سے گدھا گاڑی کو بھراجاتا ہے ۔اور یوں یہ گاڑی عین جھلسا دینے والی دھوپ کے تلے دوڑتی رہے گی ۔ہر چند کہ قدرت نے گھوڑے اور گدھے میں اتنی طاقت رکھی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بوجھ کو کھینچتا ہے۔ مگر پھر بھی ایک ہمدردی ہونا چاہئے۔ مانا کہ جانورو ںکے مالکان حیوانوں سے محبت بھی کرتے ہیں اور ان کو خوراک کی دستیابی کا بندوبست کرتے ہیں ۔مگر اس میں کیا شک ہے کہ جانورو ں کی طرف ان کالاپروائی کا رویہ اپنی جگہ سو فی صد درست ہے جس کی شکایت باہر ملک سے آئے جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کے نمائندے اکثر کرتے رہتے ہیں ۔