اتفاق رائے اور جر گہ

دشمن کے کارندوں نے بلو چستان میں ایک اور حملہ کیا 11مزدور بے در دی سے قتل کئے گئے‘ شا ید دشمن نے ملک کے سیا سی حا لات ، پار لیما نی نظام کی کمزوری ، سیا سی جما عتوں کی صفوں میں مو جو د افراتفری اور ملک کی مجمو عی سیا سی فضا میں انتشار کا فائدہ اٹھا نے کےلئے اپنے کا رندوں کو خصو صی ٹاسک دیا ہے ان کی ذمہ داری لگا ئی ہے کہ سیا سی افرا تفری سے خو ب فائدہ اٹھا یا جا ئے مو جو دہ سیا سی تعطل کی فضا ملک اور قوم کے لئے کس قدر نقصان دہ ہو سکتا ہے اس کا اندازہ ملک کے عوام کو بھی ہے ذرائع ابلاغ کو بھی ہے اگر کسی کو اس کا اندازہ نہیں تو وہ سیاستدانوں کا طبقہ ہے
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جا نے ہے
جا نے نہ جا نے گل ہی نہ جا نے باغ تو سارا جانے ہے
افسوس نا ک صورت حا ل یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس افراتفری کے برابر ذمہ دار ہیں کسی ایک فریق کو بری الذمہ قرار دینا مشکل ہے ”دونوں طرف ہے آگ بر ابر لگی ہوئی‘مو جو دہ انتشار اور افراتفری کو ختم کرنے کےلئے جو اہم تجویز سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ پا رلیمنٹ کو بطور جر گہ استعمال کر کے سیا سی مسائل کا حل ڈھونڈ لیا جائے اگر غور کیا جائے تو پارلیمنٹ کا کر دار ہی جر گہ والا ہے ملک کے اہم مسائل پارلیمنٹ میں زیر بحث آتے ہیں پڑو سی ملک افغا نستان میں آئین سازی بھی جر گہ کے ذریعے ہو تی ہے لویہ جر گہ کے اراکین ملک کے آئین کی منظوری دیتے ہیں اس وقت پا کستان میں جو حا لا ت ہیں وہ حزب اختلاف کا احتساب کرنے کے گرد گھو متے ہیں حکومت کہتی ہے کہ حزب اختلا ف کے چیدہ اراکین کا احتساب کرنے کےلئے ان کو جیلوں میں ڈالا جا نا ضروری ہے حزب اختلا ف کہتی ہے کہ حکومت سیا سی انتقام لے رہی ہے اسلئے حکومت کو مستغفی ہو کر نئے انتخا بات کا اعلا ن کرنا چاہئے دونوں گروہ اپنی بات پر بضد ہیں درمیا نہ راستہ نکالنے کےلئے کوئی تیا ر نہیں احتساب کا ذکر ہو تا ہے تو بات دور تک جا تی ہے ‘درمیان میں نیب کا ذکر آئے تو سب لو گ اپنے کا نوں کو ہاتھ لگا تے ہیں ‘ اگر حزب اقتدار اورحزب اختلا ف کو ایک میز پر بٹھا نا ہو ا تو وہ میز جیل میں لگانی پڑے گی گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ یا وسیع تر قو می مکا لمے کی تجویز دینے والے محمد علی درانی کو پتہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلا ف کے درمیاں مذاکرات کےلئے پارلیمنٹ کو جرگہ تسلیم کر لیا جائے تو مذاکرات کا راستہ مل سکتا ہے ورنہ دونوں فریق ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں ملک اور قوم کے دشمن کو سازشوں کا مو قع دینگے دشمن کی نظر صرف بلوچستان پر نہیں وہ سندھ اور جنوبی پنجاب کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے خیبر پختونخوا کو بھی نشا نہ بنا سکتا ہے حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ سیا سی کھیل کے دونوں فریق پارلیمنٹ کو جر گہ تسلیم کر کے اتفاق رائے کی راہ ہموار کریں ورنہ دونوں فریقوں کو پچھتا نا پڑے گا۔