عالمی وبا ’کورونا‘ کی نئی قسم کی پاکستان میں موجودگی اور تصدیق ہوئی ہے۔ وبا پر نظر رکھنے والے وفاقی ادارے کا کہنا ہے کہ برطانیہ سے آنے والے دو افراد میں کورونا کی نئی قسم پائی گئی۔ اندیشہ ہے کہ بیرون ملک سے کورونا وبا کی نئی قسم پاکستان میں بھی پھیل رہی ہے تاہم متعلقہ طبی شعبے کے ماہرین کا اِس سوال کہ کیا نیا وائرس انفیکشن کو زیادہ مہلک بناتا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تصدیق کے لئے ایسے شواہد موجود نہیں کہ کورونا وائرس کی نئی قسم زیادہ مہلک ہے لیکن اس کی نگرانی کی بہرحال ضرورت ہے کیونکہ اگر پاکستان میں کورونا وبا کی نئی قسم پھیلی تو اِس سے نمٹنے والی علاج گاہوں کےلئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ کورونا کی نئی شکل کا مطلب اگر یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں یہ زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے تو اس کے نتیجے میں زیادہ لوگوں کو ہسپتال میں علاج کی ضرورت ہوگی۔ دوسرا سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا کورونا ویکسین نئی شکل کے وائرس کے خلاف کام کرے گی؟ اِس سوال کا جواب ہاں اور نہیں دونوں میں ہے اور طبی ماہرین کو یقین ہے کہ موجودہ ویکسین نئی قسم کے جرثوموں پر بھی یکساں کارگر ہوگی کیونکہ تینوں معروف ویکسین موجودہ سپائک کے خلاف مدافعتی ردعمل پیدا کرتی ہیں۔ تکنیکی طور پر چونکہ ویکسین مدافعتی نظام کو وائرس کے متعدد مختلف حصوں پر حملہ کرنے کی تربیت دیتی ہے لہٰذا اگر اس کے کسی حصے میں تبدیلی رونما ہو چکی ہے اس صورت میں بھی ویکسین کو کام کرنا چاہئے لیکن اگر کورونا وائرس کو اپنی اشکال مزید بدلنے کا موقع دیا جاتا ہے تو یہ پریشان کن ہو گا۔ کورونا کے خلاف کامیابی کا پہلا قدم یہ تھا کہ اِس سے ممکنہ طور پر بچنے کے راستہ (ویکسین) تلاش کر لی گئی لیکن تشویش کا باعث امر یہ ہے کہ وائرس کی اپنی شکل بدلنے لگا ہے اور یہ ابتدائی شکل کے مقابلے اب زیادہ تعداد میں صحت مند لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔گلاسگو یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق کوروانا وائرس شاید ویکسین سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگریہ عمل جاری رہا تو اِس طرح ہم فلو والی حالت میں آجائیں گے جہاں ٹیکوں کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہو گی۔ خوش قسمتی سے موجود ویکسین میں تبدیلی کرنا آسان ہے۔کورونا وائرس کی نئی قسم باعثِ تشویش کیوں ہے؟ اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہرین تین چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو ایک ساتھ رونما ہو رہی ہیں۔ نئی قسم تیزی سے پرانے وائرس کی جگہ لے رہی ہے۔ وائرس کی ہیت تبدیل ہو رہی ہے جو وائرس کے سب سے اہم حصے کو متاثر کر رہی ہے۔ ان میں سے کچھ تغیرات کو پہلے ہی شناخت کر لئے گئے تھے جو خلیوں کو متاثر کرکے وائرس کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں ان سب محرکات سے مل کر ایک ایسا وائرس بن گیا ہے جو باآسانی پھیل رہا ہے۔ لیبارٹری تجربات کرنے کی ضرورت ہے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کےلئے کئی ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں جبکہ دنیا کے پاس اتنا وقت نہیں۔ کورونا کی نئی قسم سے متعلق سب سے پہلے ستمبر دوہزاربیس میں پتہ چلا تھا۔ نومبر کے مہینے میں لندن میں سامنے آنے والے متاثرین کی تعداد کا تقریباً ایک چوتھائی ایسے مریض تھے جو وائرس کی نئی قسم سے متاثر تھے۔ دسمبر کے وسط میں یہ تعداد تقریباً دوتہائی متاثرین تک جا پہنچی۔ دوسری طرف ریاضی دان حساب کتاب سے معلوم کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کورونا کی ممکنہ طور پر کتنی اقسام ہو سکتی ہیں لیکن یہاں یہ حساب لگانا مشکل ہے کہ اس میں لوگوں کے برتاو¿ کی وجہ سے کیا مختلف ہے اور وائرس کی وجہ سے کیا مختلف ہو رہا ہے۔کووڈ وبا کی نئے اقسام کا ابتدائی تجزیہ شائع کیا گیا ہے اور اس میں سترہ ممکنہ اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سپائک پروٹین میں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں یہ وہ چابی ہے جس کا وائرس ہمارے جسم کے خلیوں کے دروازے کھولنے کےلئے استعمال کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر‘ کورونا کا نیا وائرس اِس لئے وجود میں آیا کیونکہ انسانی جسم کی قوت مدافعت اِسے کورونا سے بچانے کےلئے سوفیصد طاقتور نہیں تھی اور نہ ہی ویکسین کے ذریعے بچاو¿ کی کوشش سو فیصدی کامیاب ہے اور اِسی بنا پر وائرس نے اپنے آپ کو بدل لیا ہے اور اب اُس پر کمزور جسمانی مدافعاتی نظام اور ویکسین دونوں ہی اثر نہیں کر رہے کیونکہ کمزور مدافعتی نظام والے مریض میں موجود وائرس نے ایک نئی شکل کو جنم دیا ہے اور انسانی جسم میں موجود تغیر پزیر وائرس ہی اِس کی نئی اقسام کی پیدائش کا میدان بن گیا۔ طبی ماہرین کورونا وبا کے خطرے کو زیادہ سنجیدگی سے دیکھنے‘ سمجھنے اور اِس کی آس پاس موجودگی کا ادراک کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے‘ ماسک پہننے اور ہاتھوں کو وقفوں وقفوں سے دھونے کےلئے ذریعے کورونا جرثومے کی ہر نئی اور پرانی قسم سے بچا جا سکتا ہے اور وبا کوئی بھی ہو‘ اُس سے بچنے (محفوظ رہنے) میں دانشمندی ہے۔