اصل میں ہمارے سرکاری دفاتر بس دو ایک سڑکوں کے کناروں پر آباد ہیں۔یہی سڑکیں شہر کے دل میںسے ہوکر نکلتی ہیں اور پھر وہیں مڑکر آ تی ہیں۔ان سڑکوں پر گاڑیوں کا ہمیشہ رش رہتا ہے ۔وجوہات یہ ہیں کہ جو لوگ ان گذرگاہوں کے ذریعے آگے اپنی کسی اور منزل کی طرف جانا چاہتے ہیں وہ بھی اسی مقام سے گذرتے ہیں اور جو ان سڑکوں کے کناروں پر قائم سرکاری عمارات ہیں ان میں بھی روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ اس وجہ سے یہاں گذر کر آگے جانا بہت مشکل ہو ہے۔پھر چونکہ سرکاری ایریا ہے اور آر پار انتہائی اہم دفتر واقع ہیں اس لئے یہاں پولیس چیکنگ بھی ہوتی ہے ۔ پھر یہاں جو فٹ پاتھ ہیں وہاں ٹریفک پولیس کی کارکردگی کی وجہ سے شہریوں کے بجائے کاریں کھڑی ہوتی ہیں ۔وہ کاریں جو اصول کی خلاف ورزی کی بنا پر لفٹر کے دو لوہے کے باز¶ں کی وجہ سے اٹھا کر فٹ پاتھ پر قید کر دی جاتی ہیں۔ جن کو وہی لفٹر واپس اتارے تو اتارے وگرنہ کوئی اپنی گاڑی کو فٹ پاتھ سے نیچے نہیں اتارسکتا۔وجہ یہ کہ ان پبلک مقامات پر پارکنگ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔کیونکہ جب دن چڑھتا ہے پشاور کے اطراف و جوانب سے اور بیرون از شہر عوام الناس جوق در جوق بغل میں فائلیں او رفائلوں کے گٹھے دبائے جی ٹی روڈ اور رنگ روڈ موٹر وے یونیورسٹی روڈ سے اسی ایریا میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پھر شہر اگرچہ کہ رہائشی طور پر تو آہستہ رفتا رسے پھیل رہا ہے ۔مگر سرکاری دفاتر جوں کے توں ویسے کے ویسے یہاں موجود ہیں ۔ چاہئے تو یہ کہ شہر کے رش کو کم کرنے کی غرض سے سرکاری دفاتر کودوسرے علاقوں میں شفٹ کر دیا جائے۔ بیشتر سرکاری آفس شہر سے باہر منتقل بھی ہوئے ہیں ۔مگر بھیڑ بھاڑ ویسے کی ویسے ہے ۔موٹر وے کے شروع ہونے سے پہلے بائیں جانب دوران پور اور اس سے ملحق علاقوں میں ان دفاتر کی شفٹنگ ہوئی تو ہے مگر ہجوم بلکہ ہجوم بے کراں جو پہلے تھا اس میں کمی کیا ہوتی بلکہ اضافہ ہو گیا ہے ۔ایسے میں جہاں بندوں کےلئے جگہ تنگ ہو جائے وہاں گاڑیاں کہاں کھڑی ہو سکتی ہیں۔ گاڑی کو ایک جگہ کھڑی کر کے فرلانگ بھر پیدل جاکر اپنے کام نپٹانا پڑتے ہیں۔ بلکہ یہاں تو سرکاری دفاتر کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔ کار کھڑی کرو اور پیدل گھومو یہاں سے وہاں اور نیچے سے اوپر کبھی تو تیسری چھت میں اور کبھی تہہ خانے والی منزل میں جاکر اپنے مسئلے حل کرنے کی ناکام کوشش کرو۔خدا نہ کرے کہ کسی کو یہاں کام پڑ ے ۔ وہ خجل خوار ہوگا۔پھر کام کون سے ہوجاتے ہیں ۔بڑے صاحب چھٹی پر ہوتے ہیں۔ یا صاحب جی کو میٹنگ نے آن گھیرا ہوتاہے ۔کبھی کبھارکے روز دورے ہیں ۔سر جی اگر اپنے آفس میں بیٹھیں تو عام آدمی کا کام ہو ۔کہیں تو فائل تیار نہیں ۔کہیں فائل تیار ہے مگر چھوٹے صاحب کے دستخط کے بغیر بڑے صاحب کے پاس جانہیں سکتی۔وہی حالت ہے جو پہلے تھی ۔ کمپیوٹر آ گئے سارا نظام کمپیوٹرائزدہو گیا مگر کیا خاک ہوگا ۔ اہلکار اپنی کرسی پر موجود ہوں گے تو کام نکلے گا۔ جو ایبٹ آباد سے آیا اسے تو اسی دن واپس جانا ہے ۔مگر جس کمرے میںکام ہے وہاں تو الو بول رہے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ سیکشن کے افسر چھٹی پر ہیں ۔اس لئے مسافر یہاں شہر میں رات رہے گا گھر فون کر دے گاکل آ¶ں گا۔ ایسے میں اس رش کے عالم میں ایک دفتر کے مین آفس کے سامنے گاڑی کھڑی کرنا تو گویا بہت بڑا جرم ہوگا۔ سیکورٹی گارڈ اشارہ کر کے آپ کو آگے آنے سے روکے گا۔ آپ سوچیں گے اب میں کہاجا¶ں۔ جو ضرورت مند بیمار ہے اور چل نہیں سکتا اسے اس عمارت کے تہہ خانے میں گاڑی لے جانا پڑے گی۔پھر اس کے بعد وہ لنگڑاتا ہوا اوپر آئے گا اور لفٹ خراب ہونے کی وجہ سے سیڑھیاں چڑھ کر صاحب کے کمرے کے باہر پہنچے گا۔ وہاں اس کو چوکیدارہدایت کرے گا سامنے سیکشن میں جا¶ صاحب تو ابھی تک نہیں آئے ۔ سیکشن میں میزکرسیاں بچھی ہوں گی اہلکار بیٹھے کام کررہے ہوں گے ۔مگر پتا چلے گا کہ فائل تو ہم نے اوپر بھیجی ہے ۔لیکن اس سے آگے کسی کو بھی معلوم نہیں ہوگا کہ فائل اس وقت کس افسر کے پاس میز پر گل سڑ رہی ہے ۔ایک ابتری کا عالم ہے ۔ ایسے میں کہ شہر کی بہتری کی باتیں ہو رہی ہیں ۔اس بارے میں کوئی نہیں سوچتا کہ تمام سرکاری دفاتر ایک ہی علاقے میں موجودہیں ان کو الگ الگ کر کے کچھ رش کو کم کیا جائے۔ شہر پھیل تو رہا ہے ۔مگر شہر کی آبادی رہائش کےلئے دور دراز جار رہی ہے ۔ مگر دفاتر تو اوپر نیچے واقع کر دیئے گئے ہیں ۔اصل مسئلہ تو یہاں گاڑی کو پارک کرنے کا ہے۔ ہر آدمی ڈرتا ہے کہ اگر میں گاڑی دور کہیں پارک کر کے آفس میں پہنچا تووہاں میرے دو گھنٹے ضرور لگیں گے ۔ ایسا نہ ہو کہ واپس گاڑی کی طرف آ¶ں تو گاڑی کسی نے چوری کر لی ہو۔کسی نے اس کو نقصان پہنچایا ہو ۔ ہر طرح سے ایک شہری کے دل میں اس بات کاڈر رہتا ہے۔ سووہ مطمئن نہیں ہوتا کہ جس دفتر میں داخل ہوا وہاں سے کس وقت نکلناہو اور نکلوں تو گاڑی غائب ہو ۔