بلوچستان میں مرکزی شہر کوئٹہ میں آباد ہزارہ برادری کی اکثریت 1990ءکی دہائی میں افغانستان سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی‘ جہاں پہلے ہی سے اِس برادری کے لوگ قلیل تعداد میں مقیم تھے پاکستان کے تاریخ میں سب سے طویل عرصہ حکمراں رہے جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت (16ستمبر1978ءسے 17 اگست 1988ئ) کے دوران جب انتہاءپسندی اور کلاشنکوف کلچر پروان چڑھا تو اُس وقت سے آج تک ہزارہ برادری بالخصوص دہشت گردی کے نشانے پر ہے اور اگر گزشتہ بیس برس میں ہوئے دہشت گردی کے واقعات پر نظر کی جائے تو سب سے زیادہ حملے اور جانی و مالی نقصانات (قربانیاں) ہزارہ برادری نے دی ہیں۔ اِس سلسلے میں تازہ ترین حملہ ہفتہ و اتوار کی درمیانی شب دارالحکومت کوئٹہ سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ’مچ (مچھ)‘ نامی علاقے میں ایک کوئلے کی کان کے قریب پیش آیا‘ جہاں دن بھر کی محنت کے بعد تھکے ہوئے مزدور (محنت کش) قیام پذیر تھے۔ وقوعے کے مطابق نامعلوم حملہ آوروں نے گیارہ کان کنوں کو اسلحے کی نوک پر یرغمال بنایا‘ اُن کے ہاتھ پاو¿ں باندھے اور پھر انہیں قتل کیا گیا۔ محنت کشوں کی لاشیں اتوار (تین جنوری) کو آبائی گھروں کو پہنچائی گئیں تو صرف کوئٹہ ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی فضا سوگوار ہو گئی! تفصیلات دل ہلا دینے والی ہیں کہ قتل ہونے والوں کا تعلق ایک ہی قبیلے (ہزارہ برادری) سے تھا جبکہ پانچ افراد ایک ہی گھر کے قتل ہوئے جس کا کوئی بھی مرد اب زندہ نہیں رہا!ہزارہ برادری کے صبر کا پیمانہ لبریز دکھائی دے رہا ہے۔ شدید سرد موسم کی پرواہ کئے بغیر کھلے آسمان تلے لواحقین میتیں لئے پانچ روز سے احتجاج کر رہے ہیں اور اِن کے گیارہ نکاتی مطالبات میں یہ بات شامل ہے کہ دھرنا اُس وقت تک ختم نہیں کیا جائے گا جب تک وزیرِ اعظم عمران خان بذات خود ملاقات کےلئے نہیں آتے‘ حملہ آوروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کروائی جائے اور جب تک وزیر اعظم تحفظات دور نہیں کریں گے‘ وہ اپنے پیاروں کی جسدخاکی بھی نہیں دفنائیں گے۔ ہزارہ برادری سے اتحاد اور اِن کے مو¿قف سے اتفاق کرتے ہوئے کراچی سے پشاور تک چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی دھرنے جاری ہیں جبکہ وفاقی حکومت کی طرف سے بات سنبھالنے کےلئے پہلے وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کو کوئٹہ بھیجا گیا‘ جن کے نامراد واپس لوٹنے کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے ذوالفقار (زلفی) بخاری اور علی زیدی کوئٹہ پہنچے لیکن بات بگڑتی چلی جا رہی ہے کیونکہ وفاقی وزرا باوجود کوشش بھی خاطرخواہ دردمندی (کارکردگی) کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ واقعات دہشتگردی کے جو کوئٹہ اور آس پاس ہونے لگے ہیں تو ا س میں غیر ملکی ہاتھ ہے جو وطن عزیز میں اس طرح کے واقعات کے ذریعے فرقہ وارانہ بد امنی کو پھیلانا چاہتے ہیں۔ایسے میں حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ان عناصر کی سرکوبی میں اب کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرے اور بلوچستان میں امن و امان پر خصوصی طور پر توجہ مرکوز کرے۔ کیونکہ اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی پیش آئے ہیں اور مستقبل میں ان کے پیش آنے کا راستہ روکنا نہایت ضروری ہے۔دشمن عناصر کی کوشش ہی یہی ہے کہ وہ بے چینی پھیلائے اور قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرے ایسے میں یکجہتی اور اتحاد کے ذریعے ان عناصر کو شکست دی جاسکتی ہے۔ سیکورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنے ارد گرد ایسے لوگوں پر نظر رکھنی ہوگی جو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا کردار ادا کرتے ہیں اور ان کو معاشرتی امن کو آگ لگانے میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔بلوچستان اور خاص طور پر گوادر میں جو ترقیاتی منصوبے پروان چڑھنے لگے ہیں ان سے ا س علاقے کی قسمت بد ل جائیگی ، یہاںآنے والی ترقی اور خوشحالی کسی بھی قیمت پر دشمن سے ہضم نہیں ہورہی اور وہ اس میں روڑے اٹکانے کی کوشش کریگا جس کا پہلا حربہ بے چینی اور بد امنی پھیلانا ہے جس کا مقابلہ مل جل کر نا ہوگا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مشرق میں واقعہ پڑوسی ملک ہر طریقے سے پاکستان کو مسائل سے دوچار کرنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لئے امن وامان کو خراب کر کے معاشی مشکلات میں مبتلا کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے بلوچستان اور افغانستان سے متصل سرحد پر پیش آنے والے واقعات اس سلسلے کی کڑی ہے۔