ایک تو جس کا گھر سڑک پر ہے یا کوئی خالی پلاٹ ہے ۔اگران میں اکثر لوگ گھر بناتے ہیں یا بنے بنائے گھر میں مزید آباد ی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی دہلیز کے باہر گلی کوذہنی طور پر اپنی اسی جائیداد میں شامل سمجھتے ہیں ۔ وہ اتنے نڈر ہوتے ہیں کہ سڑک کیوں نہ ہو اسے اینٹوں بجری اور ریت کے ڈھیر سے قریب قریب بند کر دیتے ہیں۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عام گذر گاہ ہے ۔ جس پر ہر قسم کی گاڑی گذرتی ہے ۔مگر جب یہاں سے گذر ہو تو آدھی گاڑیاں ریت کے ڈھیر کے وہاںکانوائے کی شکل میں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ جب دوسری طرف سے ٹریفک گذر جاتی ہے تو اس لشکر کی صورت میں کھڑی اتنظار کرتی گاڑیوں کے قافلے کی باری آتی ہے ۔مگر لاج نہ آنے والوں کو اس سے لاج نہیں آتی ۔جانتے بوجھتے سڑک کو بند کر دیتے ہیں ۔حالانکہ قریب اور جگہ بھی دستیاب ہوتی ہے جہاں اینٹوں وغیرہ کو گرا دیا جائے۔ پھر ٹریکٹر والے بھی ان دنوں ظلم پر اترے ہیں۔ اس خالی پلاٹ کے مالک آرڈر بک کروانے پر رات کے کسی پہرآکر سڑک پر روڑے اورگارا پھینک کر جان چھڑالیتے ہیں ۔ ذرا تکلیف کرکے تھوڑا پرے بجری ڈال دینا ان کی کتاب میں شاملِ نصاب نہیں ۔ ایک بار تو آنکھوں نے دیکھاکہ ذرا فاصلے سے گھر زیر مرمت تھا او ر یہاں چوک میں ٹریکٹر والا بے خبراور لا پروا ڈرائیور مٹی کا بڑا تودہ گرادینے پر اصرار کر رہا تھا۔اسی اثناءمیں قریب کے لوگ جمع ہوگئے ۔وہاں شہریوں اور ڈھٹائی کا شکار ٹریکٹر ڈرائیور کے درمیان اچھی خاصی منہ ماری اوربحث وتکرار ہوئی ۔مگر شہریوں نے بھی آستینں چڑھا لی ۔ یہاں سڑک پر جہاں ایک جانب تندور تھا ساتھ بچوں کا پرائمری سکول تھا اور مصروف راستہ تھا ۔شہریوں نے آخر ِ کار اس ڈرائیور کو اپنی ضد پوری کرنے میں ناکام کردیا۔ اس پر وہ بڑبڑاتا ہو ا آگے چلا گیا اورکہیں دور اس ٹرالی بلکہ بڑے ٹرالے کو خالی کیا۔ان کو تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ پھر ان کو بھی کوئی کچھ نہیں کہتا جو اینٹ گارا پتھر اور مٹی وغیرہ کی بکنگ کرواتے ہیں اور سرِ عام راستے کو بند کر دیتے ہیں۔اس میں کچھ قصور مالکان کا ہے کچھ ٹریکٹر ٹرالیوں کا ہے اور کافی سے زیادہ قصور ان کا ہے جو کہتے ہیں کہ ہم قانون کے رکھوالے ہیں۔کچھ راکھے جو باغ کی رکھوالی پر تعینات ہوں اگر بجلیوں کے ساتھ ساز باز کرلیں تو بجلیاں باغ کی ہریالی کی دشمن ہو جایا کرتی ہیں۔ یہاں کے آشیانوں گھونسلوں کو جلاکر راکھ کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن جاتا ہے ۔ہمارے مہربان ایسے بھی ہیں کہ گھر کے باہر سرکاری سڑک کو چھینی ہتھوڑے کے ساتھ چھیل کر کاٹ کر زخمی کر کے سڑک کے آر پار بڑی سی نالی بنا دیتے ہیں ۔ جس میں سے ان کے گھر کا گندا پانی دور پار نالے میں جانے لگتا ہے ۔وہ اس پر خوش خرم گھر کولوٹتے ہیں ۔ بہت غلط کام ہے۔ اگر کسی منصوبہ بندی اور پلاننگ کے بغیر کیا جائے ۔نالی کوویسا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ نالی اپنی جگہ ایک سپیڈ بریکر بن جاتا ہے۔شہر کی حالت کوحالتِ زار کہنا زیادہ درست ہے ۔گھروں کے باہر سپیڈ بریکر بنالئے جاتے ہیں ۔یہاں مکان کا مالک اپنے مین گیٹ کے باہر بڑی سڑک پر ٹریفک کو روکنے اور آہستہ چلنے پر برخلافِ قانون قدرت حاصل کر لیتا ہے ۔پھر یہاں ایک تو مالک نہیں ہر پلاٹ کا ایک اور گھر کا دوسرا مالک ہے ۔سب اپنی اپنی ہانکتے ہیں او رشہر کو کھنڈرات میں بدل دینے پر ماہر ہو جاتے ہیں۔ مگر ان کو روکنے ٹوکنے والے کو ڈھونڈنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا ۔ان کو ڈھونڈنے کےلئے ہائی پاور کی دوربین کی اشد ضرورت ہے ۔وہ دور بین جو خلائی ستاروں کی حرکات کو نوٹ کرنے کےلئے اونچے مقام پر بنائی گئی ہے ۔پھر گھر سے نکلتے ہی خالی پلاٹ ہے سڑک کا کنارہ ہے سامنے بینک ہے ۔ مگر گند ڈالنے والے گند کے شاپر اپنے دروازے سے باہر دوسرے کے گھر کے دورازے پر پھینک دیتے ہیں۔ان شاپروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پھینکنے والے کو بہت جلدی تھی ۔ورنہ دس قدم آگے کوڑے کا ڈھیر تھا ۔ خیر سے ہمارے ہاں کے شہر وں کو عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیاہے۔ یہ فخر کی بات نہیں بلکہ ندامت کی بات ہے کہ اب پشاور او رکراچی کے علاوہ لاہور کو بھی دنیا کے گندے ترین شروع کے دس شہروں میں شمار کر لیا گیاہے ۔باقی کے شہروں میں دو تو انڈیا کے ہیں۔ پانچ تو یہ ہوئے ۔مگر کاش کہ ہم اس بات کو سمجھیں کہ ہمیں گند گریل کوڑاکرکٹ کے حوالے سے کیوں اتنی شہرت مل رہی ہے ۔جیسے کرکٹ کا کھیل لیں ایک زمانے میں ہم جیت جانے کےلئے مشہور تھے ۔مگر اب تو ٹی وی پر ہماری شکست کے چرچے ہیں۔جیسے کوڑا کرکٹ میں ہماری مشہوری ہے ۔